شاہد جمیل منہاس/کتنے عظیم ہیں وہ لوگ کہ جن کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف معاشرے کی اصلاح ہے۔ دوسروں کے لئے وہی سوچتے ہیں جو اپنے لئے سوچتے ہیں۔ سادگی اور حسنِ اخلاق ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔ معاشرے میں رنگ بکھیرتے بکھیرتے اس کا ئنات کو خوشنما رنگوں میں تحلیل کر دیتے ہیں۔ لیکن خود سادگی کے پیکر کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ کبھی کسی رشتے کے تقد س کو پامال نہیں ہونے دیتے۔ چاہے یہ رشتہ خونی ہو یا معاشرتی۔ انسانیت کے ہر رنگ میں اپنا لوہا منواتے ہیں۔ یہ وہ نایاب گوہر ہوتے ہیں کہ جنہیں اپنے نام کو معروف کرنے کا شوق بالکل نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ کی ذات ایسے لوگوں کو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا کرتی ہے۔ اس عنوان کو مثبت انداز میں لیتے ہوئے میں مزید یہ کہوں گا کہ کچھ ہستیاں ساری دنیا کو خوشحال بنا کر خود فقیری کی زندگی بسر کرنے پر فخر اور خوشی محسوس کرتی ہیں۔ اوپر بیان کردہ تمام خوبیوں کا مالک کوئی درویش انسان اس افراتفری کے دور میں اگر کسی ملک کا MPA یا وزیر بن جائے تو اس کے لئے اس رنگین دنیا میں اپنے فرائض نبھانا کتنا کٹھن مرحلہ ہو گا ہمیں اس کا اندازہ ہونا چاہیے۔ گزشتہ حکومت میں بے شک بہت بڑے منصب پر فائز رہا جس کا اوڑھنا پچھونا اسلامی اقدار کا فروغ ہے جو صرف حق کا ساتھ دیتا ہے چاہے دوسری طرف کوئی اپنا ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ کی کروڑں رحمتیں نچھاور ہوں اس ہستی پر جو ہے تو اس ملک کا سیاست دان لیکن جب بیرون ملک کسی دورے پر جانا ہو تو مسجد میں قیام کرتاہے کہ کہیں حکومتی یا جماعت کے خزانے پر بوجھ نہ پڑ جائے۔ ممبرانِ اسمبلی چاہے وہ صوبائی ممبران ہوں یا قومی T.A/D.A کی مد میں لاکھوں روپے ماہوار لیتے ہیں اکثر جن کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ جبکہ ایسے مرد قلندر چند سو روپے وصول کرتے ہیں۔ دراصل یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جب نماز پڑھتے ہیں تو یوں سمجھیں کہ وہ اللہ سے ملاقات کرتے ہیں۔ تو ظاہرہے ایسا انسان جھوٹا اور خائن نہیں ہو سکتا۔ لہذا وہ اللہ کے حضور سچ کا پیکر بن کر حاضر ہوتا ہے۔اس اسلام کے عظیم سپاہی کا نام سراج الحق ہے جو کہ امیر جماعت اسلامی ہیں۔جب وہ حکومت میں فرائض منصبی سرانجام دے رہے تھے تو سراج الحق صاحب کے ایک دفعہ لاہور کے دورے کے کل اخراجات 700 روپے تھے اور باقی رقم واپس آتے ہی خزانے میں جمع کروا دی گئی۔ یورپی ممالک کی حدود میں جب بھی جاتے تو مسجد میں قیام کے ساتھ ساتھ ملنے والوں کے گھروں میں قیام کرنا پسند کرتے ہیں تا کہ پاکستان کے قومی خزانے پر اس کا بوجھ نہ پڑے۔گزشتہ کئی عشروں سے ہماری سیاسی صورت حال ہم سب کے سامنے ہے کہ اس ملک کے درو دیوار کو آگ لگی ہوئی ہے۔ اس میں بھی کو ئی شک نہیں کہ اس ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کو دھچکا لگنے سے بچاؤ کے لئے قدم بڑھائے ہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں ہم نے دیکھا کہ سراج الحق صاحب نے دنیاوی دولت اور عہدوں کو ٹھکر ا کر ملکی مفاد میں کام کرنے کو ترجیح دی اور ثابت کیا کہ دولت اور نام نہاد شہرت ان کے لئے کوئی معانی نہیں رکھتی۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے کل کی بات ہو کہ جب ستارہ مارکیٹ اسلام آباد میں جماعت اسلامی کی قد آور شخصیت شفیق الرحمن عباسی مرحوم نے مجھے جماعت اسلامی کے ایک پروگرام میں نعت رسول مقبولﷺ پڑھنے کے لئے مدعو کیا۔ جب میں نعت پڑھ کر فارغ ہوا تو اپنی سیٹ پر بیٹھنے ہی لگا تو مجھ سے میرے ساتھ والی دو کرسیاں چھوڑ کر محترم سراج الحق بیٹھے ہوئے تھے۔ جنھوں نے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا اور بہت پیار اور خلوص سے ملے کیو نکہ میں نے نبی ﷺ کی نعت بیان کی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ لالچ اور حرص سے مبرا انسان کا نام سراج الحق ہے۔بچپن میں جس سکول میں پڑھا کرتے تھے وہ ان کے گھر سے چھ کلو میٹر دور تھا۔جہاں وہ روزانہ پیدل جایا کرتے تھے۔ایک دفعہ یوں ہوا کہ ان کے پاس جوتے نہیں تھے اور وہ ننگے پاؤں چھ کلو میٹر کا سفر طے کر کے سکول پہنچ گئے اور ثابت کیا کہ یہ دنیاوی تنگی اور تکلیف ان کی کامیابیوں کے راستے میں کبھی حائل نہیں ہو سکتی۔ اس دن سکول کے سارے بچوں اور اساتذہ نے دیکھا کہ ان کے پاؤں سے لہو بہہ رہا تھا۔ عمران خان کے اسلام آباد دھرنے کے دوران ملک جب تباہی کے دھانے پر پہنچنے لگا تو اس ملک کے بادشاہ نما امیروں کو جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی اور میں نے اور آپ سب نے دیکھا کہ ٹی وی چینلز کے لئے ان کے پاس وقت نہیں تھا۔ ساری ساری رات اقوام عالم نے انھیں براہ راست دیکھا اور سنا کیو نکہ آج پھر اس قوم کو حق اورسچ کے پیکر کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
پچھلی حکومت کے دوران ایک موقع پر بہت سے وزیروں کے ساتھ آپ نے بھی اپنا خرچ کا حساب پیش کیا تو ایک صاحب آپ سے کہنے لگے کہ میرے اخراجات 120,000 روپے ہیں اور آپ کے چند سو روپے۔ یہ کیا بات ہوئی۔ توآپ نے فرمایا کہ”بھائی جو خرچ کیا وہ بتادیا اور وہی لوں گا کیونکہ دن کا کھانا جماعت اسلامی کے دوستوں نے کھلا دیا اور رات کو سونے کیلئے چارپائی بھی دے دی“۔سراج الحق جب بات کرتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ بولتے ہی رہیں لیکن وہ بولتے بہت کم ہیں۔ تھوڑابول کر دریا کو کوزے میں بند کر دیتے ہیں۔ کیو نکہ جھوٹ بولنے کے لئے لمبی تمہید کی ضرورت ہوتی ہے اور سچ کسی تمہید کا محتاج نہیں ہوتا۔ جب اسلام آباد میں ڈھول کی تھاپ پر نام نہاد امیرذادوں کی اولادیں ناچ رہی تھیں تو ایسے موقع پر جب کراچی سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہونے لگے تو رو پڑے کہ اسلام آباد کا رخ کرنے کا بھی جی نہیں چاہتا کیو نکہ اسلام آباد جل رہا ہے مگر میں اپنے ہی گھر میں مورچے نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن وہ آئے اور ایک دفعہ پھر سچ بول کر چلے گئے۔ آج کے ڈسکو حکمران شریف النفس انسان کے پاس بیٹھنا کہاں گوارہ کرتے ہیں۔ لیکن وقت نے بتا دیا کہ کردار کی پاکیزگی دولت اور شہرت کی محتاج نہیں ہوتی۔ پھر ثابت ہو گیا کہ جب تک پاکستان کی دو بڑی جماعتوں کے سر براہان کے درمیان سراج الحق نہیں ہوں گے معاملہ کسی صورت بھی حل کی طرف نہیں جا سکے گا۔سراج الحق صاحب کی شخصیت اور ان کے مقصد حیات کو میں ایک دانشور اور پاکباز انسان کا ایک خوبصورت جملہ بیان کر کے مزید ہزاروں الفاظ لکھے بغیر اپنی بات کو ختم کر رہا ہوں۔ ”دنیا سے اتنی محبت کرو جتنا تمیں یہاں رہنا ہے۔ کیونکہ قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کے بغیر دنیا اجڑ جائے گی“۔
320