یوں تو دنیا میں بہت سے لوگ آتے ہیں اور اپنی زندگی کے دن گزار کر چلے جاتے ہیں،ان کا نام تک کوئی نہیں جانتا بس آئے اپنی دنیا میں مگن رہے اچھی یا بری جیسی بھی زندگی گزاری نہ کسی کی اچھائی کی نہ کسی کی برائی بس گمنام رہ کر زندہ رہتے ہیں اور اسی حالت میں چلے جاتے ہیں کہ نہ کسی کو ان کے آنے کی خبر ہوتی ہے اور نہ ہی جانے کی۔زندگی تو ہر انسان گزارتا ہے راحت میں گزارے یا تکلیف میں یہ چند صبحیں چند شامیں گزر ہی جاتی ہیں اور پتا بھی نہیں چلتالیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں ایسے کام کر جاتے ہیں کہ انہیں رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا ہے ،ان کا نام ادب و احترام سے لیا جاتا ہے،جب بھی ان کا نام آئے تو دل عقیدت سے جھوم جاتا ہے ،آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں،ان کی ادائیں یاد آنے لگتی ہیں ،ان کی زندگی اوران کے کارنامے یاد کر کے دل غمگین ہو جاتا ہے،وہ دنیا سے چلے جانے کے باوجود ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انسانیت کے لیے کچھ کر جاتے ہیں ،ہمیشہ لوگوں کے لیے راحت کا سامان مہیا کرنے کی فکر میں رہتے ہیں، خود پر تکلیف برداشت کر لیتے ہیں لیکن دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچنے دیتے۔ایسے لوگوں کی اگر فہرست بنائی جائے تو عبدالستار ایدھی رحمۃاللہ علیہ کا نام سر فہرست ہو گا۔
عبدالستار ایدھی کی ساری زندگی انسانیت کی خدمت میں گزری،انسانیت سے محبت تو گویا انکی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ ساری زندگی غریبوں ،ناداروں ،یتیموں ، بیواؤں،غریبوں اور مریضوں کی مفت خدمت کرتے رہے۔انسانیت کی خدمت میں اتنے آگے بڑھے ہوئے تھے کہ دوسروں کی مدد کرنے کی خاطر کبھی زیبائش اختیار نہیں کی ہمیشہ سادہ زندگی گزاری تا کہ آرائش پر خرچ ہونے والی رقم بھی کسی غریب و مستحق کے کام آ جائے،وسعت کے باوجود ہمیشہ سادہ لباس پہنا سادہ خوراک کھائی اور انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے۔غریبوں کی مدد کے لیے آپ کی زیبائش و آرائش سے نفرت اس واقعہ سے صاف ظاہر ہوتی ہے، آپ کے بیٹے فیصل کہتے ہیں کہ جب افغانستان میں ایدھی مرکز کا افتتاح کیا جا رہا تھا تو وہاں کے عملہ نے مہمانوں اور صحافیوں وغیرہ کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں خرید لیں،جب ایدھی صاحب وہاں گئے تو اس بات پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا کیوں کہ ان کے خیال میں یہ رقم ضرورت مندوں کی مدد پر خرچ کی جا سکتی تھی۔اس رات آپ فرش پر ہی ایمبولینسوں کے ڈرائیوروں کے ساتھ سوئے۔
آپ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں شہرت رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ نے کبھی سادگی کو ترک نہیں کیا۔ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اٹھا کر دیکھ لیں صرف انسانیت کے لیے درد نظرآئے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے کہ جس کو اپنی مخلوق کی محبت عطا فرما دے اور یہ محبت عبدالستار ایدھیؒ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ خالق کائنات نے ان سے انسانیت کی خدمت کا کام وسیع پیمانے پر لیا۔
ویسے تو آپ بچپن سے ہی دوسروں کی مدد کا شوق رکھتے تھے والدہ آپ کو دو پیسے جیب خرچ دیتیں تو ایک استعمال کر لیتے اور دوسرا پیسا کسی ضرورت مند کی مدد میں صرف کر دیتے لیکن ان خدمات کا باقائدہ آغاز تقسیمِ ہند کے بعد1951ء میں کیا آپ نے اپنی تھوڑی سی رقم سے ایک دوکان خریدی اور اسی دوکان میں ایک ڈاکٹر کی مدد سے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری کھول لی ،یہ کام صرف پانچ ہزار روپے سے شروع ہواجسے اللہ تعالیٰ نے مقبولیت بخشی اور یہ وسیع پیمانے پر پھیلتا چلا گیا ،1957ء میں کراچی میں فلو کی وبا پھیلی تو آپ نے فوراً لوگوں کی مدد کے لیے کام شروع کیا اورشہر میں بہت سے خیمے لگوائے اور مفت ادویات فراہم کیں۔اس کے بعد آپ نے پہلی بار ایک مستقل عمارت خرید کر ایدھی سنٹر کا آغاز کیااور انسانیت کی خدمت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ایک شخص نے آپ کو کافی رقم دی جس سے آپ نے ایمبولینس خرید لی اور اسے خود ہی چلانے لگے پھر اس میں اللہ نے اتنی برکت دی کہ آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس 600سے زائد ایمبولینسیں ہیں جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔آپ نے اپنی زندگی میں بہت سے کلینک ،پاگل خانے ،زچگی گھر ،معذوروں کے لیے مراکز، بلڈ بنک،یتیم خانے ،لاوارث بچوں کے لیے پناہ گاہیں اور اسکول کھولے۔اس ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز ایک کمرے سے ہوا اور آج یہ ملک کا سب سے بڑا خدمت کا ادارہ ہے ۔اس کے ہزاروں کارکن اور رضا کار چوبیس گھنٹے کسی وقفے کے بغیر لوگوں کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے مراکز کی تعداد250سے زیادہ ہے جہاں لاوارث اور یتیم بچوں کی مفت کفالت کی جاتی ہے اور انہیں تعلیم دی جاتی ہے۔اسکے علاوہ ان مراکز میں مفت ادویات ، وہیل چیئرز،بیساکھیاں اور معذوروں کے لیے دیگر ضروری اشیاء فراہم کی جاتی ہیں۔ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس انتہائی بہترین ایمبولینس سروس موجود ہے جو سالانہ تقریباً دس لاکھ افراد کو ہسپتالوں میں منتقل کرتی ہیں اس کے علاوہ اس فاؤنڈیشن کے پاس فضائی ایمبولینس سروس بھی موجود ہے جس میں دو چھوٹے طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر شامل ہیں جنکی تعداد میں آئندہ چند سالوں میں اضافہ کیا جائے گااس فضائی ایمبولینس سروس کے ذریعے دور دراز علاقوں میں فوری رسائی ممکن ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کا دائرہ کار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔پاکستان کے علاوہ افغانستان ،عراق،چیچنیا،بوسنیا،سوڈان،ایتھوپیااور سماٹرا تک اس فاؤنڈیشن کے مراکز موجود ہیں ۔ آپ کی خواہش تھی کہ پاکستان میں ہر ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہسپتال تعمیر کیا جائے ،ہر بڑے شہراور دیہاتوں میں مراکزقائم کیے جائیں ۔
آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو پوری دنیا میں مختلف اعزازات سے نوزا گیا۔1986ء میں آپ کو فلپائن نے Roman Magsaysay Award دیا۔1988 ء میں آرمینیا میں زلزلہ زدگان کے لیے خدمات کے صلے میں انہیں امن برائے یو ایس ایس آر دیا گیا۔ 1993 ء میں روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں پاؤل ہیرس فیلو Paul Harris Fellow RotaryInternational Foundation دیا گیا۔ 2000ء میں متحدہ عرب امارات کی طرف سے ہمدان اعزاز برائے عمومی طبی خدمات دیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں دیے گئے اعزازات یہ ہیں،1980ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں نشانِ امتیاز دیا گیا،پاکستانی فوج نے انہیں شیلڈ آف آنر پیش کی ،1992ء میں حکومت سندھ نے انہیں سوشل ورکر آف سب کونٹی نینٹ کا اعزاز دیا ،ان کے علاوہ بھی انہیں بہت سے اعزازات دیے گئے۔ یہ تمام اعزازات تو دنیاوی ہیں اصل اعزازات تو اخروی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت ہو جائے تو یہ اعزاز تمام اعزازات سے بڑھ کر ہے، عبدالستار ایدھی کی خدمات کی قبولیت کا اندازا اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج ان کی وفات پر ہر چھوٹا بڑا، امیر غریب غمزدہ ہے ہر شخص ان کی تعریف کرتا ہوا نظر آ رہا ہے اور شاید کوئی ایک شخص بھی ان کے خلاف کوئی ایک بات کرتا ہوا نظر نہ آئے گایہی ان کی خدمات کی قبولیت کی سب سے بڑی علامت ہے ۔آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ان کی خدمات کو اپنی بارگاہ عالیہ میں قبول فرمائے اور مرحوم کی مغفرت فرما کر ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ہر پاکستانی کو ان سا جذبہ عطا فرمائے، آمین یارب العالمین۔{jcomments on}
101