پروفیسر محمد حسین/خوف کے معنی انسان کے دل میں کسی ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیز کے واقع ہونے کا خطرہ اور اندیشہ پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کے خود کے معنی یہی ہیں کہ بندہ اس کے عذاب سے ڈرے خواہ وہ عذاب دنیا میں ہو یا آخرت میں جس طرح یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت دوسروں پر غالب و حاکم ہو اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ اللہ عزوجل کا خوف تمام خوفوں پر غالب و حاکم ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم ان سے ڈرو گے؟ اللہ ان سے زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اگر تم واقعی مومن ہو (التوبہ) یہ شیطان ہے جو تمہیں اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے پس تم ان سے نہ ڈرو اور صرف مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو (آل عمران) گو یا اللہ کا ڈر ایمان کا لازمی تقاضا ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ العیا ذ باللہ وہ مشرکین کے خیالی بھوتوں کی طرح کوئی ہولناک اور ڈراؤنی چیز ہے کہ ذرا ساناخوش ہو جائے تو سب کچھ تباہ و برباد کر کے رکھ دے اللہ سبحانہ کی بعض صفتیں اس کے جلال و جبروت کو ظاہرکرنے والی ضرور ہیں لیکن ان کی صحیح نوعیت اللہ رب العالمین کی عظمت و قدرت کی بے پناہی اور حیطہ قدرت کی ہمہ گیری کے اظہار کے لیے ہے تاکہ اہل ایمان کو ان سے پورا اعتماد حاصل ہو اور اہل کفر ان سے عبرت حاصل کریں ان باتوں سے یہ تاثر لینا کہ اللہ تعالیٰ کوئی خوفناک ہستی ہے اس کی رواح کے بالکل منافی بات ہے البتہ اللہ عزوجل کی صفات جمیلہ کے جو تقاضے ہیں اور ان سے جو سنن و قوانین ظہور میں آنے ہیں وہ بجائے خود ایسے اہم اٹل اور بے پناہ ہیں جو شخص اس کا علم رکھتا ہے وہ لازما اللہ عزوجل شانہ سے نہ صرف ڈرتا ہے بلکہ سب سے زیادہ ڈرتا ہے قرآن حکیم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں وہی ڈریں گے جو علم رکھتے ہیں (فاطر)تاہم جو لوگ قرآن مجید سے نابلد ہیں وہ تو بے شک بے خوفی کی زندگی بسر کرتے ہیں لیکن جو اس سے آشاہیں ان کا یہ حال ہے کہ ان کے پہلو بستروں سے کنارہ کش رہتے ہیں وہ اپنے رب کو خوف و طمع کے ساتھ پکارتے ہیں (السجدہ) وہ جو قدم بھی اٹھاتے ہیں اچھی طرح سوچ سمجھ کر اٹھاتے ہیں کہ ایک دن ان کو اپنے مالک کے آگے ہر قول و فعل کا حساب دینا ہے وہ ڈرنے کا حق ادا کرتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے (آل عمران) اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا مطلب اس سے بھاگنا نہیں بلکہ اس کی طرف پلٹنا اور اسی کے دامن میں پناہ لینا ہے اور اس کا حق یہ ہے کہ مرتے دم تک اللہ کی فرمانبرداری اور وفاداری پر قائم رہنا اور نافرمانی چھوڑ دینا ہے اور گناہوں سے حتی الامکان بچنا ہے حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ جو شخص ڈرتا ہے وہ شروع رات میں چل دیتا ہے اور جو شروع رات میں چل دیتا ہے وہ عافیت کے ساتھ منزل پر پہنچ جاتا ہے یاد رکھو اللہ کا سو داستانہیں بہت مہنگا اور بہت قیمتی ہے یاد رکھو اللہ کا سودا جنت ہے (ترمذی) جس طرح رہزنوں کے حملے سے ڈرنے والے مسافر اپنی آسائش اپنے آرام اور اپنی نیند قربانی کر کے علی الصبح چل پڑتے ہیں اسی طرح انجام کی فکر رکھنے والے اور دوزخ سے ڈرنے والے مسافر آخرت کو بھی چاہیے کہ اپنی منزل یعنی جنت تک پہنچنے کے لیے اپنی راحتوں لذتوں اور خواہشوں کو قربان کر دے اور منزل مقصود کی طرف تیز گامی سے آگے بڑھتا ہی چلا جائے لیکن یہ جنت کوئی سستی یا کم قیمت جان و مال اور خواہشات نفس کی قربانی ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے مارتے اور مرتے ہیں (التوبہ) یعنی یہ جان جسے امانت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے انسان کے حوالے کیا ہے اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے دے رکھی ہے اس کو برضا ورغبت اللہ کی ملکیت تسلیم کرتے ہوئے اس کو جہاد میں لگا دے اور غلبہ اسلام کی جدوجہد میں اللہ کے حضور کفارو مشرکین سے لڑتے ہوئے نچھاور کر دے تو اللہ تعالیٰ اس فانی و عارضی زندگی کے بدلے ابدی اور جاودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورت جنت ادا کر دے گا اور یہ ہے اللہ کا سودا اس سے زیادہ بھاری منافع کسی سودے یا تجارت میں ملنا کسی بھی طرح ممکن ہی نہیں لیکن جن کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہوں اور جو اس دنیا کے عارضی منافع کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں وہ متاع دنیا کے لیے نہایت ہی ارزاں قیمت یعنی چند ڈالروں کے عوض اپنی جان و مال کا سودا کرتے ہیں وہ منافع ملنا بھی یقینی نہیں کیونکہ کبھی جعلی ڈالر پکڑ دئیے جاتے ہیں اس سے بڑی حماقت اور کیا ہو گی اس کے برعکس رب کریم کا وعدہ سچا ہے وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی اور سے نہیں ڈرتا کیونکہ اس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اللہ کے سوا نہ کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ کوئی نقصان‘ اللہ کا خوف لازما انسان کو اس کی شخص و ذاتی زندگی میں متقی اس کی عائلی و خاندانی زندگی میں مشفق اور اس کی اجتماعی زندگی میں ایک مصلح بنا دیتا ہے وہ مخفی زندگی کے گوشوں میں بھی اللہ کی حدود و محارم کی پوری پوری نگہداشت کرتا ہے وہ خوب جانتا ہے اور اپنی آل و اولاد اور اپنے کنبہ و خاندان والوں کو بچانے کی پوری کوشش کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا عذ ر پیش کر کے سرخرو ہو سکے۔
201