113

الخدمت فاؤنڈیشن کا بچت سٹال

قارئین کرام! رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا ہے اور پہلا عشرہ اپنی آب و تاب کیساتھ جاری ہے، نیکیوں کا موسم بہار ہے، ایک طرف مسلمان اپنی جھولیاں رحمتوں سے بھر رہے ہیں اور دوسری طرف مسلمان ہی اپنے دامن گناہوں سے بھرنے میں مصروف ہیں، اس نیکیوں کے موسم میں جہاں ایک سجدے کا ثواب عام دنوں کی نسبت کئی گنا بڑھ کر عطا کیا جاتا ہے، جہاں روزہ دار کے منہ سے آنے والی مُشک کو رب تعالیٰ پسند کر رہا ہے، جہاں سحری و افطاری کو برکت اور باعث بخشش بنایا گیا ہے، وہیں مسلمانوں کو لوٹنے والوں نے اپنے دامن میں گناہوں کو سمیٹنا شروع کر رکھا ہے، ہر سال ماہ رمضان سے قبل اور دوران رمضان مہنگائی میں خود ساختہ اضافہ کر دیا جاتا ہے، حکومتی سطح پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کم اضافہ ہوتا ہے اور نچلی سطح پر بیوپاری و کاروباری دکاندار سب حکومت کے نام پہ عوام کو چونا لگانے میں مصروف رہتے ہیں، جس دکاندار سے مکالمہ کیا جائے کہ ریٹ اتنے بڑھ گئے ہیں وہ جواب یہی دیتا ہے کہ چوروں کی حکومت ہے ہم کیا کریں۔ دنیا بھر میں مسلم و غیر مسلم رمضان المبارک میں دکانوں پہ رعایتی قیمتیں لگا دیتے ہیں تاکہ لوگ باآسانی چیزیں خرید سکیں لیکن ایشیائی ممالک اور بالخصوص پاکستان میں اس کے برعکس نظام ہوتا ہے، فروٹ کی قیمتیں آسمانوں کو چھوتی ہیں کیونکہ رمضان میں فروٹ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے، اسی طرح گھی آئل، کھجور، فاسٹ فوڈز، بیسن، پیاز آلو وغیرہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کا روزہ رکھنا اور افطار کرنا محال کر دیا ہے، اس خود ساختہ مہنگائی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی عوام کے پاس کوئی چارہ نہیں، حالانکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جو چیز سٹاک کی جائے یا جس کی قلت پیدا ہو جائے عوام اس کا بائیکاٹ کر دیتی ہے مگر یہاں یہ فارمولا ہے کہ ہمارے بائیکاٹ کرنے سے کیا ہو گا۔ ہر شخص کی زبان پر یہی الفاظ ملتے ہیں تو یہ ایک ایک کر کے کروڑوں لوگوں کے منہ کے الفاظ ایسے مجموعہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں کہ ہمارے بائیکاٹ سے کیا ہو گا۔ اگر یہی ایک ایک فرد واحد بائیکاٹ کرنا شروع کرے تو یقین جانیں اس بائیکاٹ کا عدد کروڑوں میں پہنچ سکتا ہے مگر ہم چونکہ غریب اشرافیہ ہیں اس لیے ہم سے یہ نہیں ہو پائے گا۔دوسری جانب اس بار افطار دستر خوان لگانے اور پیکج دینے کی بجائے بچت سٹالز لگانے کی جانب ترغیب دلانے کی ہر سطح پہ کوششیں کی گئیں، گوجرخان میں الخدمت فاونڈیشن نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور بچت سٹالز کے ذریعے شہریوں کو ریلیف دیا جا رہا ہے جس میں 30 روپے سے 100 روپے تک کا ریلیف مختلف اشیاء پر مل رہا ہے، یعنی جو چیز منافع سمیت 300 روپے کی بازار ملتی ہے وہ منافع کے بغیر قیمت خرید سے بھی کم 250 روپے کی ملتی ہے جو انتہائی احسن اقدام ہے اور اس پر الخدمت فاونڈیشن گوجرخان مبارک باد کی مستحق ہے قارئین کرام! گزشتہ رمضان کی طرف نظر دوڑائیں تو کتنے ایسے چہرے ہیں جو گزشتہ رمضان ہمارے ساتھ تھے مگر آج محتاج دعا ہیں یعنی قبروں کے سپرد ہو چکے ہیں، ہم کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے؟ کیا یہ رمضان المبارک ہماری زندگی کا آخری رمضان نہیں ہے؟ ہم سوچتے کیوں نہیں؟ خدا کی نشانیوں پہ غور کیوں نہیں کرتے؟منافع خوری ذخیرہ اندوزی بہت بڑا گناہ ہے اور رمضان المبارک میں بھی اس گناہ میں شامل ہونے والوں کو اپنی آخرت کی فکر کیوں نہیں۔ یہی بڑے حاجی نمازی بڑی بڑی تسبیحاں اٹھائے مسجد کی پہلی صف میں براجمان ہوتے ہیں اور یہی رمضان المبارک میں مہنگا ترین عمرہ کرنے بھی جاتے ہیں تو مخلوق خدا کی جیبوں پہ ڈاکے ڈال کر ناجائز طریقے سے منافع کما کر کونسا عمرہ اور کونسی عبادتیں؟اگلے لمحے ہماری سانس بند ہو جائے تو یہ پیسہ جائیداد کاروبار کس کام کے؟ ہمیں اپنی آخرت کی فکر کیوں نہیں؟ سوچیئے گا ضرور۔ والسلام

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں