102

اقتدار کا فلسفہ /عاطف کیانی

ابراہم لنکن نے کہا تھا بچوں کے لیے آج سکول کے کمرے کا فلسفہ کل ان کے لیے اقتدار کا فلسفہ ہوتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے پاکستان کے سیاستدان اقتدار در اقتدار کے فلسفے سے تو واقف ہیں سکول کے کمرے سے واقف نہیں ہیں۔کیونکہ سکول کے کمرے میں اخلاقیات بھائی چارے، رواداری،عدل و انصاف صبر و تحمل اپنے فرائض کی درست سمت میں انجام دہی کا درس ملتا ہے۔جو کہ ہمارے سیاستدانوں میں نہیں کیو نکہ یہ لوگ بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ہیں جو کے بد اخلاقی کے بھی نچلے درجے میں آتی ہیں ۔ یا یہ بھی ہو سکتاہے کے یہ سیاستدان سکول کے کمرے میں گئے ہی نہ ہوں اس لیے وہ اخلاقیات کے فلسفے سے واقف نہیں۔پاکستان کے سیاستدان بعض اوقات ایک دوسرے خلاف ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کسی قانون ساز ادارے جس کے وہ ارکان ہیں ایسی زبان اور بعض اوقات ایسے غیر اخلاقی زبان استعمال کرنا انہیں زیب نہیں دیتا۔ایک فلسفی کا قول ہے کہ اگر آپ کسی قوم کی معاشرتی اقتدار کا جائزہ لینا چاہتے ہیں تو اس قوم کے بچوں سے گفتگو کریں آپ کو پتہ چل جائے گااس قوم کے معاشرتی اقدار کس درجے پرہیں لیکن یہاں بچوں کو توچھوڑیے ملک کے اہم ترین عہدوں پر فائز لیڈر ایسی باتیں کرتے ہیں کے عقل دہنگ رہ جاتی ہے۔کہ یہ ہیں ہمارے لیڈرجو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے گالم گلوچ بدتہزیبی فقرے بازی ناشائستہ زبان استعمال کرتے ہیں کیا یہ لیڈر کہلانے کے لائق ہیں اور بعض اوقات ایسا ہونا ہے کے یہ مفاد پرست سیاستدان جہاں اپنا فائداہ دیکھتے ہیں وہاں اپنے ضمیر کا بھی سودا کردیتے ہیں۔عوامی مسائل کو حل کرنے کی بجائے صرف ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں ڈرون حملوں پر ان کی قومی غیرت نہ جانے کہاں چلی جاتی ہے۔ادھر ان کی زبان بلکل بند ہو جاتی ہے۔بھارت کی پاکستان میں اشتعال انگیزی پھیلانے اور کشمیریوں پر ہوتے روز بروز ظلم ان کو نظر نہیں آتے۔نہ ان کو ملکی مفادات سے کوئی دلچسپی ہے۔نہ ان کو عوام کے فلاح و بحبود کے کاموں سے ان کو تو صرف اقتدار سے چمٹے رہنے سے دلچسپی ہے۔ایک دوسرے پر الزام تراشی کی روایت پاکستان میں بہت عرصے سے چلی آرہی ہے۔ان نام نیاد لیڈروں نے مادر ملت فاطمہ جناح کو بھی نہیں بخشا۔ذولفقار علی بھٹو بھی اپنے دور میں بعض اوقات ایسی باتیں کرتے ۔پھر شیخ رشید نے بھی کچھ ایسی روایت ڈالی اور موجودہ دور میں بھی تمام پارٹیوں کے رہنماہ ایک دوسرے کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کرتے ہیں۔یہ لوگ پاکستان کے سب سے بڑے قانون سازاداروں کے ارکان ہیں ان کا کام ہے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بناناملکی مفادات کی حفاظت کرنااپنی قومی غیرت و برقرار رکھناخارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینامگر اس جانب ان کی قومی غیرت سوئی ہوئی ہے ۔یہ لوگ نہ تو قومی مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں نہ عوام کو ان کاحق فراہم کر سکتے ہیں۔ تو پھر ایسے لیڈروں جن کا کوئی کام نہیں سوائے اس کے ایک دوسرے پر الزام لگانے کے تو پھراس قوم کی حالت کیسے بہتر ہو گی اگر ملک کے لیڈر ہی ایسے ہیں تو اس کو بہتر کون کرے گااسے لیئے کہتے ہیں تعلیم انسان کے اخلاق اور کردار میں بہتری لاتی ہے۔مگر ہمارے لیڈران تو لگتا ہے سکول گئے ہی نہیں اس لیے وہ اخلاقیات کے فلسفے سے واقف نہیں ہیں یا ان کے والدین نے ان کے صرف اقتدار کا فلسفہ سکھایا ہے سکول کے کمرے کااور اخلاقیات کا فلسفہ نہیں سکھایاکیونکہ پاکستان میں سیاست ویسے بھی وراثت میں ملتی ہے نچلے طبقے کو تو ویسے بھی اوپر نہیں آنے دیاجاتا۔لگتا ہے پاکستان کے سیاستدانوں کو اقتدار کے فلسفے سے پہلے سکول کے کمرے کا فلسفہ سکھایا جائے کیونکہ اس چیز کی انہیں اشد ضرورت ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں