استعمار کے ہاتھوں شہید ہونے والے خاکساروں کو سلام .برطانوی استعمار کے ہندوستان پر قبضے کے بعد ملک بھر میں آزادی کے لیے سرگرم عمل رہنے والی مختلف سیاسی، مذہبی، اصلاحی جماعتوں میں عسکری طرز پر منظم ہونے والی خاکسار تحریک کا کردار بھی نمایاں ہے – جس کی بنیاد اسوقت کے معروف دانشور،سکالر،حب وطن سے سرشار شخصیت علامہ عنایت اللہ خان المشرقی تھے-جنگ عظیم اول کے بعد ترکی میں سلطنت اسلامیہ میں خلافت کو جومسلمانوں کے اتحادکی علامت تھی تحفظ دینے کے لیے ہندوستان میں چلائی جانیوالی عظیم الشان خلافت کی تحریک کے کامیا ب نہ ہونے کے باوجود اس میں حصہ لینے والوں کی مالی و جانی قربانیوں نیز پناہ ملی جذبہ کے اظہار سے ثابت ہوا تھاکہ مسلمان بطور ایک ملت کے ابھی تک زندہ ہیں اوران میں عروج کی طرف گامزن ہونے کی صلاحیتیں موجود ہیں -علامہ مشرقی نے مذکورہ ملی جذبہ سے استفادہ حاصل کر کے عام جماعتوں کے بر عکس عسکری اندازسے مسلمانوں کو منظم کرنے کے لیے خاکسار تحریک کا آ غاز کیا -غلبہ اسلام، مسلمانوں کی سربلندی، بلاتفریق مذہب مخلوق خدا کی خدمت، نظم و ضبط کی پابندی، قوانین کی پابندی اطاعت امیر نیزخدمت خلق کے لیے مزدو ر کا اوزار بیلچہ اٹھانے،مسلکی بحث سے گریز اور تمام رہنماؤں کی عزت و احترام نمایاں اصول تھے-
حکومت کے ابتدا ہی سے اس کے خلاف ہو نے کے باوجود تحریک اپنے محتاط طرزعمل کی بنا پر عوام میں مقبول ہوتی گئی مگر۹۳۹۱ میں کانگرسی حکومت کی لکھنو میں شیعہ سنی تنازعہ کوہوادیکرمسلمانوں میں اختلاف پیداکرنے کو روکنے کے اقدامات پر اس کے خلاف سخت کاروایاں شروع کردی گئیں –
بعد ازاں خاکساروں کے موثر احتجاج و ثابت قدمی سے مظالم برداشت کیں – چنانچہ حکومت کی غیر قانونی کاروایاں رک گئیں،انکالکھنو محاذ کامیاب ہوا –
خاکساروں کی مذکورہ کامیابی جو حکومت کے مستعفی ہونیکاایک سبب بھی تھا حکومت پنجاب کوبے چین کردیااوراس نے ایک طرف مسلمانوں اوردوسر ے مذاہب والوں کو عسکری تنظیمیں کھڑی کرنیکی ترغیب دینے کے علاوہ خاکساروں پر وردی پہننے،بیلچہ اٹھانے اوروردی پہن کر عسکری قوائد کرنے پرپابندیاں لگادیں -در حقیقت حکومت اس تنظیم کواپنے سیاسی اقتدارکے لیے خطرہ سمجھنے لگی -خاکساروں کی حکومت سے تمام مذاکرات ناکام ہونے اورسخت رویہ سے قائد تحریک نے اپنی تنظیم کو کچلنے سے بچانے کے لیے جس کے شوائد موجود تھے تحریک کے ادارہ عالیہ کو دہلی لے جا نے اوروہاں جاکرحکومت کے مذاکرات اور ومسلمان رہنماؤ ں سے اس سلسلے میں مداخلت کے لیے کوششیں شروع کرنیکافیصلہ کیا مگریہ اقدام بے نتیجہ رہا –
دریں اثنا دہلی میں قیام کے دوران انہوں نے حکومت پنجاب پرسیاسی دباؤڈالنے کے لیے خاکساروں کوہدایات جاری کیں کہ اگر حکومت کاخاکساروں سے ٹکراؤہوتووہ لاہورمیں احتجاج کے لیے جمع ہوں مگر ان کے ایک ہاتھ میں قرآ ن ودوسرے ہاتھ میں اللہ کانام-خاکسار جو لاہورمیں مختلف مقامات پرجمع ہوئے قیادت کی طرف سے مذید ہدایت کے منتظر تھے کہ دریں اثنا انکی مقامی قیادت نے شاہی مسجد میں نمازکافیصلہ کیااو ا س سلسلے میں ۳۱۳ خاکساروں کا ایک جیش تر تیب دیا گیا اور دفعہ۴۴۱ کی پابندیوں کی تعمل کرتے ہوئے مسجد کی طرف چل پڑے- پولیس بھی انکے ہمراہ چلتی رہی -جب انکاجیش ٹبی کے قریب پہنچاتو گھوڑاسواروں نے
اور خاکساروں کو لاٹھیوں سے پیٹناشروع کردیا – خاکساروں کی دفاعی اقدامات کے دوران کچھ پولیس افسر بھی زخمی ہو گئے جس پراس کے فائرنگ سکویڈ نے بے دریغ فائرنگ شروع کردی جس کے دوران۱۳ خاکسارشہیداور۳۶ زخمی ہوئے- تحریک کو ملک میں خلاف قانون قراردیاگیا- صوبہ میں اخبارات پرسنسرشپ نافذ کر دی گئی اورخاکسارں کی وسیع پیمانے پرگرفتاریاں شروع ہوگئیں – چندد ن بعد آل انڈیامسلم لیگ کے اجلاس میں اس سانحہ پر افسوس کا اظہار اور تحقیقات کامطالبہ کیاگیا-تحریک کے قائد کو بھی گرفتارکرکے ویلورجیل میں ڈال دیاگیا تھا-انہوں نے ایک بیان میں شہداء کودین خداکے متوالے قراردیتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا-اسی دوران خاکسار مرکز اچھرہ پر پولیس کی آنسو گیس کے بے دریغ استعمال سے خاکسار بے ہوش ہو گئے تو گرفتار کر لیا گیا – علامہ کاصاحبزادہ بھی گیس سے بیہوش ہوا اور فوت ہو گیا –
مذکورہ سانحہ سے متعلق علامہ مشرقی کابیان تھا ..لاہور کی شہادت گاہ میں خاکساروں نے تحریک کی سلامتی کی خاطراپنا خو ن پانی کی طرح بہادیا- خاکسارتحریک صحیح معنوں میں مظلوم تھی اورصرف اعلائے کلمتہ الحق کی خاطران شہداء نے اپنی جانیں بارگاہ خدا میں خوشی سے پیش کیں -وہ کرائے کے سپاہی نہ تھے-انکو کوئی ذاتی غر ض نہ تھی -وہ دین کے سچے متوالے تھے اوردین کو زندہ کرنے کی دھن میں آئے تھے- خاکسارتحریک نے کوئی عمل خلاف قانون نہ کیا-حکومت تحریک کو مٹانے کی فکرمیں تھی-ا س مطلب کے لے عذرلنگ تلاش کیا-ایک نام نہاد مسلما ن نے تحریک کو بے رحمی سے قتل کرنے کی ٹھانی-ایسی حالت میں خاکسار شہداء کا اپنی جانیں دینا ہنددوستان کی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ تھا……ان اسلام کے سچے شیداؤں نے جو کچھ ان سے ہو سکتا تھا کیا-ان پرہماراسلام ہو-