سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے چاہنے والوں نے ملک میں ہمیشہ تباہی و بربادی پھیلائی، یہ جہاں بھی جاتے ہیں سرکاری املاک کو نقصان پہنچا تے ہیں پی ٹی وی حملہ، پارلیمنٹ حملہ وغیرہ کی باتیں تو بہت پرانی ہو گئی ہیں۔ اسلام آباد میں انہوں نے درختوں کو نقصان پہنچایا، عدالتوں کے دروازے توڑے، فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کا بیرئر توڑ دیا، اسی طرح کئی بار انہوں نے گاڑیاں جلائیں۔ وہ عمران خان کے ساتھ جہاں بھی جاتے ہیں اور اسی طرح کے نقصانات کر کے ہی واپس آتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق عمران خان کے حالیہ گریٹر اقبال پر لاہور کے جلسے میں تقریبا 80 لاکھ روپے کی املاک کو نقصان پہنچا ہے۔ اس طرح انہوں نے ہر جلسے اور ہر ریلی میں سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا ہے کبھی کچھ جلا دیا کبھی کچھ توڑ دیا، عوام کی گاڑیوں تک کو انہوں نے نہیں چھوڑا اور انہیں بھی جلا دیا۔لیکن کیا مجال کہ کوئی عدالت یا ادارہ حرکت میں آیا ہو، کسی نے ان کے خلاف ایکشن لیا ہو وہ جو بھی کرتے پھریں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان کی مزید حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ خود عمران خان کے خلاف کتنے کیسز ہیں جو ثابت شدہ بھی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ ریلیف لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کے مخالفین کے خلاف اگر اس قسم کے کیسز ہوتے تو انہیں ضرور سزا ملتی بلکہ ان کے خلاف تو کچھ ثابت بھی نہ ہوتا تب بھی ان کی گرفتاری عمل میں جاتی۔ گزشتہ دور حکومت میں ہم نے دیکھا کہ کتنے سیاسی مخالفین کو گرفتار کیا گیا اور کتنے کتنے مہینے بلکہ سالوں انہیں جیلوں میں قید رکھا گیا اور پھر کچھ ثابت نہ ہونے پر رہا کردیا گیا مگر کسی ادارے کی یا عدالت جرأت نہیں ہو رہی ہے کہ وہ عمران خان کو گرفتار کر سکیں۔ اگر کوئی عدالت گرفتاری کا حکم بھی دے دے تب بھی انہیں گرفتار کرنا کسی کے بس میں نہیں۔
عمران خان نے ایسے جتھے پال رکھے ہیں جو پولیس پر حملہ کرنے سے بھی نہیں کتراتے اور سر عام اسلحہ کی نمائش کرنا اور پٹرول بم استعمال کرنا تو معمولی بات بن چکی ہے۔ یہاں تک کہ اسلام آباد کے اندر پولیس کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکنوں کے پاس اس وقت آنسو گیس کے شیل میں موجود تھے جو نہ جانے ان کے پاس کہاں سے آئے؟ یہ اتنے بڑے بڑے جرائم میں ملوث ہیں جو دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں لیکن کسی نے ان کے خلاف انکوائری یا تحقیق کرنے کی بھی جرات نہیں کی کہ اس قسم کا اسلحہ یہ کہاں سے لاتے ہیں یا یہ پٹرول پمپ بنانے کی تربیت کہاں سے لیتے ہیں؟ان کے خلاف کیسے ہی مقدمات کیوں نہ ہو جائیں ان کو ضمانت ملنے میں ذرا دیر نہیں لگتی، عدالتیں انہیں بلاتی رہتی ہیں لیکن وہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے، ججوں کو مجبور انہیں ضمانت دینی پڑتی ہیں۔ وہ عدالتوں میں بعد میں حاضر ہوتے ہیں ضمانت پہلے سے ہی انہیں مل جاتی ہے۔ جج پہلے ہی ضمانت لے کر ان کے انتظار میں ہوتے ہیں، وہ عدالتی وقت گزر جانے کے بعد بھی عدالت میں موجود رہتے ہیں عمران خان اپنے وقت کے مطابق پہنچتے ہیں اور ججوں کو اپنا منتظر پاتے ہیں اور چند منٹوں میں کی ضمانتیں ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ جبکہ مقدمہ زیادہ سنگین ہو تو وہ اپنے ساتھ زیادہ خطرناک جتھے لے کر عدالت میں پہنچ جاتے ہیں، تو عدالت کو مجبور ان کی گاڑی میں بٹھا کر ان سے دستخط کروانے پڑتے ہیں اور وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر دستخط کر کے واپس روانہ ہو جاتے ہیں۔امریکہ کے خلاف انہوں نے بیانیہ بنایا اور اس کی شدید مخالفت کی جس پر پی ٹی آئی کے کارکنان نے بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا اور Absolutely Not کا نعرہ اپنی گاڑیوں کے پیچھے درج کرکے گھومتے رہے اور اس پر بہت زیادہ اطمینان کا اظہار کرتے رہے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کے خلاف حکومت نے تھوڑا سا ایکشن لیا تو امریکہ کے ایوانوں میں سے چیخیں سنائی دے رہی ہیں زلمے خلیل زاد نے عمران خان سے ان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد بنی گالہ میں ملاقات کی جواب منظر پر آگئی ہے۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو امریکہ کسی محب وطن پاکستانی یا کسی سچے مسلمان کے لئے اتنا پریشان نہیں ہو سکتا یہ تو ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ امریکہ کتنا اسلام اور پاکستان دشمن ہے، کہتے ہیں کہ باطل کا تیر جسے لگتا ہے وہ حق پر ہوتا ہے، جس کے لیے باطل تڑپ رہا ہو اس کے باطل پر ہونے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ اگر امریکی کسی کے لیے تڑپ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے پیچھے کہانی کچھ اور ہی ہے اور جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یا ہمیں نظر آرہا ہے وہ درحقیقت ایک دھوکا ہے۔ملک کے سنجیدہ حلقے اس بات پر شدید حیرت زدہ ہے کہ ایک شخص کو ملک کی عدالتوں سے اتنے زیادہ ریلیف کیسے مل سکتے ہیں اور اس کے کارکنوں کو کیوں کر کسی بھی جرم پر سزا نہیں ملتی اور کیوں کر بظاہر محب وطن اور محب اسلام نظر آنے والے شخص کے لیے امریکہ اتنا تڑپ رہا ہے اور کیوں اس کے لیے اتنی ہمدردی امریکیوں کے دلوں میں جاگ رہی ہے؟ میرے خیال سے ابھی اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستانیوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور کسی لیڈر کے نعروں کی بجائے سنجیدہ لوگوں کی باتوں کو بھی توجہ سے سن لینا چاہیے اور ان پر غور کرنا چاہیے۔