وزیر اعظم نے ”آپ کا وزیر اعظم“پروگرام میں بہت کچھ کہا ہے مگران کی جس بات نے ہنگامہ برپا کر دیا ہے وہ حکومت سے نکلا تو زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا پہلے تو میں آفس میں چپ چاپ بیٹھا دیکھتا رہا تھااب باہر اگر نکلا تو آپ کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی والے جملے پر مشتمل ہے میڈیا اور سوشل میڈیاپر اس جملے کے بارے میں کافی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں اور اس جملے کے مخاطب کو تلاش کیا جا رہا ہے اور اس کے پس پردہ معانی ڈھونڈے جا رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت سے نکل کر بندہ اپوزیشن میں ہی آتا ہے اپوزیشن میں آکر اپوزیشن کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے ہاں اگر وہ یہ کہتے کہ مجھے نکال کر اگر آج کی اپوزیشن اقتدار میں آگئی تو وہ اس کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے لیکن یہاں تو مقابلہ ایسا نہیں کیا وزیراعظم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اپوزیشن اگر عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے انہیں حکومت سے نکالتی ہے تو وہ خطرناک ہو جائیں گے یا پھر ان کا روئے سخن کسی اور طرف تھااور اپوزیشن کو سامنے رکھ کر دوسروں تک پیغام پہنچایا بہر حال اس بار یہ پتہ چلا کہ آپ کاوزیراعظم پروگرام عام آدمی کے سوالوں کا جواب نہیں دے رہا تھابلکہ اپنی بھڑاس نکال رہا تھاایک ہی سانس میں دو متضاد باتیں کرنے سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ وزیراعظم نے اس حوالے سے کوئی تیاری بھی نہیں کی تھی مثلاً انہوں نے کہا کہ اگلی حکومت بھی انہی کی ہو گی اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے دی کہ مجھے نکالاگیا تو میں زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا اگر آپ کی پوزیشن اتنی مضبوط ہے اور آپ اگلی حکومت بھی اپنی ہی دیکھ رہے ہیں تو پھر آپ کو کون نکال سکتا ہے آپ کو تو کہنا چاہئے مجھے نکالنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا اپوزیشن کو لمبا انتظار کرنا پڑے گا جب اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر ایسی باتیں کی جاتی ہیں تو یہ مضبوطی کے بجائے کمزوری کا تاثر ابھارتی ہیں ذوالفقارعلی بھٹو نے جب اپنی کرسی پر ہاتھ مار کر کہا کہ میری کرسی مضبوط ہے تو اس دن ان کی کرسی کمزور ہو گئی تھی آپ نے تو یہ نہیں کہا کہ میری کرسی مضبوط ہے بلکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر میری کرسی چھینی گئی تو میں زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا وزیراعظم کی باتوں پر ان کے ترجمانوں‘مشیران‘معاون خصوصی اور وزراء نے خوب تالیاں بجائی ہیں حالانکہ تالیاں بجانے کا نہیں بلکہ سوچ بچار کرنے کا وقت ہے وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے انہیں راتوں کو نیند نہیں آتی جبکہ باتوں سے پتا چلتا ہے کہ انہیں کسی اور وجہ نہیں آتی انہوں نے اپنے مشیران کی جھوٹی واہ واہ کے نرغے میں رہ کر ایک ایسی خیالی دنیا میں بسیرا کر رکھا ہے جس کا باہر کی حقیقتوں سے تعلق دکھائی نہیں دے رہا انہوں نے خوشحالی کی جو داستانیں اپنے ٹیلیفون خطاب میں سنائی ہیں انہیں سن کر عام آدمی خو ش نہیں ہوا بلکہ اس کے سینے پر گویا خنجر سے چل گئے ہیں جس وزیراعظم کو یہ نہیں پتہ کہ صرف تنخواہ دار طبقہ ہی نہیں بلکہ سفیدپوش‘مڈل کلاس سے لے کرغربت کی لکیر پرزندگی گزارنے والے سبھی مہنگائی کے ہاتھوں اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں وہ عوام کے دکھو ں کا مداوا کیسے کر سکتا ہے یہ تو کہہ دینابہت آسان ہے کہ میڈیا جھوٹی خبریں اور رپورٹیں دے کر عوام کو گمراہ کر رہا ہے کیا واقعی ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں جنہیں میڈیا نہیں دکھا رہا کیا میڈیا سیاستدانوں کی طرح جھوٹ بول سکتا ہے زمین پر زندگی اجیرن ہو تو کیا ایک خوشحال زندگی کی تصویر پیش کی جاسکتی ہے؟کارپوریٹ سیکٹر کی خوشحالی کا ذکر آپ جتنابھی کریں وہ ایک خاص طبقے کی خوشحالی کا ذکر آپ جتنا بھی کریں وہ ایک خاص طبقے کی خوشحالی ہے جیسا کہ وزیراعظم نے خود کہا ہے کہ وہ اس سیکٹر سے کہیں گے کہ مزدوروں کی تنخواہیں بڑھائیں لیکن دوسری طرف ذرا غورکریں کہ حکومت نے پنشنرز کی پنشن بڑھانے کے بجائے اس پر انکم ٹیکس لگا دیا ہے اور کٹوتی کر دی گئی ہے اس وقت کے زمینی حقائق حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ ہیں عوام کو گیس نہیں مل رہی اس کے بل موصول ہو رہے ہیں بجلی‘گیس‘پٹرولیم مصنوعات وغیرہ کے نرخ آئے روز بڑھ جاتے ہیں وزیراعظم نے اس کا ذکر نہیں کیا اور یہ نہیں بتایا کہ منی بجٹ لانا پڑا اور اس کے ذریعے عام آدمی پر اربوں روپے کے ٹیکسوں کا جو بوجھ پڑا اس کے اثرات سے بچانے کیلئے حکومت کیا ریلیف دے رہی ہے صرف یہ کہہ دینے سے زخموں پر مرہم نہیں رکھا جا سکتا کہ مہنگائی ایک عالمگیرمسئلہ ہے یورپ اور امریکہ کی مثالیں دے کر عوام کو دلاسہ دینے کی رویت اب ختم ہونی چاہیے وہاں لوگ بھوک سے تنگ آکر خودکشیاں نہیں کرتے فلاحی ریاستوں کا تصور دیکھنا ہو تو یورپ اور امریکہ میں دیکھا جا سکتا ہے ہمارے ہاں تو سب کچھ عوام نے اپنی جیب سے کرنا ہوتا ہے جیب خالی ہو تو انہیں مرنے کے بعد کفن بھی نصیب نہیں ہوتا آج حکومت کو آئے چارسال گزر گئے ہیں اب پھر وزیراعظم نے یہ نوید سنائی ہے کہ ٹیکس اصلاحات کرکے آٹھ ہزار ارب روپے سے زائد ٹیکس اکٹھا کر کے دیکھائیں گے چار سال میں ٹیکس گزاروں کی تعداد بائیس لاکھ سے زیادہ نہیں بڑھ سکی اب کونسی ترکیب استعمال کریں گے کہ ایک سال میں ٹیکس اتنے زیادہ اکھٹے ہو سکیں گے؟سب کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم نے جس لب ولہجہ میں بات باتیں کی وہ وزیراعظم کے منصب کو زیب نہیں دیتیں ان کے مشیران‘وزیران بھی کسی ٹاک شو میں ہوتے ہیں تو دلیل سے بات کرنے کے بجائے مخالفین پر چڑھ دوڑتے ہیں کیونکہ انہیں ہدایت اور ترتیب ہی یہی دی جاتی ہے جب آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہ ہو تو آپ جھجلاہٹ کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں وزیراعظم کی یہ بات درست ہے کہ انہوں نے اپوزیشن میں رہ کر بڑے بڑے جلسے کئے چار بار مینار پاکستان گراؤنڈ کو بھرا مگر وہ دن تھے جب عوام ان کے سحر میں مبتلا تھے جب وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کو لعنت قرار دیتے تھے جب کہتے تھے کہ بجلی‘گیس کی قیمتیں بڑھیں تو سمجھیں کہ وزیراعظم چور ہے جب وہ نئے پاکستان کیخواب لے کرعوام کو اپنا گرویدہ بنائے ہوئے تھے کیا آج بھی وزیراعظم مینار پاکستان کو بھر سکتے ہیں کیا وہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کی شکست بھول چکے ہیں معلوم نہیں کہ انہیں یہ پروگرام کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا جب انسان کے پاس کہنے کیلئے کچھ بھی نہ ہو تو اسے خاموش ہی رہنا چاہیے ورنہ اس کی باتیں زخموں پر نمک چھڑکنے کا باعث ہی بنتی ہیں وزیراعظم کے پاس جو عرصہ بچا ہے ا س میں غریب عوام کا سوچیں اور ان کی حالت بدلنے کی عملی کوشش کریں تو انہیں ایسا لب ولہجہ اختیار کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے جس پر فتح کے بجائے شکست کا گمان ہوتا ہے
