ترقی پذیر ممالک کو قرضہ دینے والی قوتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ملک قرضہ واپس نہ دے سکیں بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے تاکہ وہ ملک ان کے چنگل میں ہمیشہ کے لئے پھنس جائیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ ایسے حالات پیدا کرتے چلے جاتے ہیں جن سے ترقی پذیر ممالک کو مزید قرضہ جات لینے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہے اس طرح ترقی پذیر ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دبے چلے جاتے ہیں اگر کسی خوشحال ملک نے اپنی تباہی کو آواز دینی ہو تووہ آئی ایم یف سے قرضہ لے لے اس سلسلے میں روانڈا کی مثال موجود ہے جو کہ ایک خوشحال زرعی ملک تھا آئی یم ایف والوں نے اس ملک کے حکمرانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ملک میں زراعت کے لئے ترقی یافتہ طریقوں کو رواج دیں جس کے لئے وہ حسب ضرورت قرضہ دے گا یوں روانڈا آئی یم ایف کے جال میں پھنس گیا اس نے قرضہ کی پہلی قسط زراعت میں لگادی دوسری قسط کا وقت آیا تو آئی ایم ایف نے حکومت کو چند تجاویز دیں مثلاََ ٹیکسوں کے نظام کو زیادہ سے زیادہ عوام تک پھیلایا جائے اور فالتو لوگوں کی چھٹی کرادی جائے اور حکومت کو بتا دیا کہ ان شرائط پر عمل درآمد کے بعد دوسری قسط جاری کی جائے گی لہٰذایہ امرمجبوری روانڈا کی حکومت نے ان کے کہنے پر عمل کیا جس کے نتیجے میں ملک میں بے روزگاری بڑھ گئی اور اس کے ساتھ عام آدمی بھی ٹیکسوں کی زد میں آگیا ملک میں انارکی کی کیفیت پیدا ہو گئی ملک بھر میں فسادات شروع ہو گئے جس میں لاکھوں اس کی بھینٹ چڑھ گئے اور روانڈا جوکہ افریقہ کا ایک خوشحال ملک تھا بالکل تباہ وبرباد ہوکررہ گیا اسی طرح دنیا کے درجنوں ممالک آئی ایم ایف کے قرضوں کی وجہ سے تباہی وبربادی کا شکار ہو چکے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف والے قرضہ سود پر دیتے ہیں اور اسلام سمیت تمام مذاہب میں سود حرام ہے اسلام میں تو سود کو اﷲ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے اگر کوئی کاشتکار کسی سے سود پر قرضہ لیتا ہے تو وہ سود خور فصل کی کٹائی کے وقت آتا ہے اور اس کی محنت کا ایک بڑا حصہ لے جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ کاشتکارکی ساری زمین آہستہ آہستہ سود خور کے قبضہ میں چلی جاتی ہے آج دنیا کے کئی ممالک میں غیر سودی بنک کا قیام عمل میں آچکا ہے اور آج روس سمیت دنیا کے کئی ممالک غیر سودی نظام معیشت کو اپنانے پر مجبورہیں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ادارہ یواین ڈی پی تمام ملکوں کی ترقی کے پیمانے ناپتا ہے لوگوں کا تقابلی جائزہ لیتا ہے کہ کیا حقیقت میں ترقی کے ثمرات ان تک پہنچ پائے ہیں یا نہیں یا صرف ترقی کا ڈھول میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈہ کے ذریعے پیٹا جارہا ہے اس ادارے نے دنیا کے تمام ممالک کو چار درجوں میں تقسیم کیا ہے سب سے اوپر وہ خوش قسمت ترین ممالک آتے ہیں جو بہت ترقی یافتہ ممالک کے زمرے میں آتے ہیں پھر ترقی یافتہ ممالک آتے ہیں اس کے بعد درمیانے درجے کے ترقی یافتہ ملک اور آخر میں وہ بد قسمت ممالک آتے ہیں جنہیں نچلی سطح کے ترقی والے ملک کی فہرست میں رکھا گیا ہے اس فہرست میں صرف تینتالیس ممالک ہیں پاکستان بھی اسی فہرست میں شامل ہے دنیا کے دوسوآٹھ ممالک کی فہرست میں ہمارا پیارا ملک ایک سو سینتالیسویں نمبر پر کھڑا ہے ذراتوجہ کریں کہ نیپال اور کینیا جیسے ملک ایٹم بم کے حامل ملک پاکستان سے اوپر والے درجے پر فائز ہیں ہمارے بعد برما آتا ہے اور اس فہرست کا خاتمہ نائیجیریا نام کے ملک پر ہوتا ہے انتہائی دکھ کا مقام یہ ہے کہ ہمارے ملک کے تمام مقتدر حلقوں نے چپ سادھ رکھی ہے ناروے وہ ملک ہے جو اس فہرست میں سب سے اوپر کے درجے میں فائز ہے سویڈن کا شمار چودہ نمبر پر ہے اس ملک کی ترقی کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے وہاں کی حکومتیں اپنی رعایا کو جو سہولتیں مہیا کرتی ہیں وہ ہم صر ف اور صرف جنت کی حد تک سوچ سکتے ہیں صرف ایک بات کو مد نظر رکھیں کہ ناروے میں انسان کی اوسط عمر اکیاسی برس ہے یعنی عام آدمی اچھی آب و ہوا اور جدید طبی سہولیات کی بدولت بڑے سکون سے اکیاسی برس تک زندہ رہ سکتا ہے جبکہ پاکستان میں عمومی عمر اس وقت صرف چھیاسٹھ برس ہے تعلیم کے میدان میں آجائیں تو ناروے میں ہر بچہ سترہ سال پڑھتا ہے اوسطاََ ہر بچہ بارہ سال زیر تعلیم رہتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پاک وطن میں عمومی طور پر ایک بچہ صرف و صرف چار برس کے اعداد دوشمار سے آگے نہیں بڑھتا اور مقام افسوس تو یہ ہے کہ کانگو جیسا ملک بھی ہم سے آگے ہے حد تو یہ ہے کہ کمبوڈیا اور گھانا جیسے ممالک بھی تعلیم کی دوڑمیں ہم سے بہت آگے نظر آتے ہیں دولت کے ارتکاز سے لے کر بین الاقوامی رابطوں تک ، غربت سے لے کر لوگوں کے خوش رہنے کے رجحان تک، روزگار کی دستیابی سے لے کر زندگی کی حفاظت تک ہم زندہ قوموں کے مقابلے میں بہت بیچھے ہیں جب ہم حکمرانوں سے ترقی کے نعروں اور دعووں کو سنتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہم ناروے سے بھی بہتر ملک بن جائیں گے حالانکہ موجودہ حالات میں سوائے جہالت اور غربت ترقی کا عنصر دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا ذارسوچئے کہ جس دن مفلس اور غریب نے بولنے کی طاقت حاصل کر لی تو پھر کیا ہوگا؟
130