اس امر کو باعث افسوس ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ راولپنڈی میں ہوائی فائرنگ، آتش بازی اور حقیقی زندگی و سوشل میڈیا پر اسلحے کی نمائش تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک راولپنڈی پولیس نے ان واقعات پر بڑی حد تک قابو پا لیاتھا مگر موجودہ سیاسی عدم استحکام اور پولیس کی عدم توجہ کے باعث یہ واقعات پھر تیزی سے فروغ پا رہے ہیں۔ اس بات پر تو سبھی متفق ہیں کہ اگر سوشل میڈیا اور موبائل کا استعمال مثبت انداز میں کیا جائے تو اس سے بجا طور پر انقلابی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں مگر اس پس منظر میں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اس کے منفی استعمال سے معاشرے پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان پر کیسے قابو پایا جا سکتاہے؟ دور جدید میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں۔ سماجی روابط کی ویب سائٹس کا استعمال ضرورت سے زیادہ عادت بن چکا ہے۔ ایف آئی اے، پولیس یا قانون نافذ کرنیوالے دیگر اداروں کی کارکردگی سے متعلق جب بھی سوال کیا جاتا ہے تو عموماً اس کے سطحی عوامل پر ہی توجہ مرکوز کی جاتی ہے مثلاً اگر کوئی کمسن لڑکا کسی سنگین جرم کا ارتکاب کرے تو اصل وقوعہ اور پولیس کی کارروائی زیر بحث لائی جاتی ہے۔ اس جانب توجہ کیوں نہیں دی جاتی کہ آخر نوجوان نسل کے ایک بڑے حلقے میں ہوائی فائرنگ اور اسلحے کی نمائش کو آئیڈیل کیوں تصور کیا جانے لگا ہے؟ دفعہ 285/286 کے تحت آتشبازی کرنے والوں پر مقدمہ درج کیا جاتا ہے لیکن اگلے ہی دن یہ لوگ ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں، اس تناظر میں قانون کو یقینا سخت کئے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ متعدد بار اس جانب توجہ مبذول کرائی جا چکی ہے کہ راولپنڈی میں یہ واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں، اس کے علاوہ ٹک ٹاک وغیرہ پر ایسے واقعات کی تشہیر والی ویڈیوز کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا۔پولیس کو اس جانب بھی دھیان مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ راولپنڈی اور اس کے مضافات میں بڑی گاڑیوں میں ”ٹنٹڈ گلاس“ یعنی کالے شیشوں، ”پولیس ہوٹرز“ اور ”سائرن لائٹس“ کا استعمال انتہائی عام ہو چکا ہے، اسی وجہ سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور با اثر افراد کی گاڑیوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، جس کا دل کرتا ہے گاڑیوں کے شیشوں پر کالا سٹیکر لگا کر اور سائرن بجا کر قانون کی دھجیاں بکھیرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ پولیس کو چاہیے کہ جیسے وہ پیشہ ور گداگروں کو ویڈیوز کے ذریعے بے نقاب کر رہی ہے، وہی طرز عمل یہاں بھی اختیار کرے۔ شہرمیں بڑھتے ہوائی فائرنگ و اسلحے کی تشہیر کے یہ واقعات امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کا باعث بن رہے ہیں، آئے روز متعدد افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں، شہریوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے طرز زندگی سے دور رہیں جو انکی اپنی اور دوسروں کی جانیں خطرے میں ڈالنے کا باعث بنتا ہے۔ اس ضمن میں پولیس کے کردار پر بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں، واقفان حال کا کہناہے کہ ہوائی فائرنگ کرنے والے گروہ پہلے علاقہ پولیس سے باقاعدہ ”معاملہ“ طے کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پولیس ایسی فائرنگ پرکوئی کان نہیں دھرتی۔ شادی بیاہ و دیگر کسی تقریب کی صورت میں علاقہ پولیس کو پہلے انکا ”حصہ“ پہنچا دیا جاتا ہے۔ اگر ان گروہوں کو ہی پولیس کی آشیر باد حاصل ہو گی تو عوام اپنی شکایات کیلئے کہاں کا رُخ کریں گے؟ آخر کوئی ایسا میکنزم کب بنایاجائے گا جس کی بدولت سوشل میڈیا پر اسلحے کی تشہیر کرنے والے خود بخود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ریڈار پر آ جائیں۔ ایف آئی اے کو اس ضمن میں توجہ دینے کی ضرورت ہے مگر پنجاب اور راولپنڈی پولیس کا بھی فرض ہے کہ وہ ان قوانین کی دھجیاں بکھیرنے والے ہینڈلز کو چلانے والوں کے خلاف فی الفور کارروائی کرتے اس طرز عمل کو عام ہونے سے روکیں۔ سوشل میڈیا پر ہوائی فائرنگ کی ویڈیوز اپلوڈ کرنے والوں کیخلاف پولیس کی ”سافٹ ویئر پالیسی“ خاصی کارگر ثابت ہوئی گو کہ اب اس جانب بھی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایف آئی اے کی ویب سائٹس پر ویڈیوز رپورٹ کرنے کا آپشن موجود ہے مگر شہری اس سسٹم کی مبینہ پیچیدگی کی بنا پر رپورٹ کرنے سے کتراتے ہیں ۔ شہریوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ سی پی او راولپنڈی سید ندیم بخاری دیگر معاملات کی طرح اس اہم مسئلے کا بھی نوٹس لے کر پولیس کو احکامات جاری کریں گے کہ وہ ان گروہوں کیخلاف فی الفور سخت کریک ڈاؤن کرینگے۔
146