ہماری سیاست میں شور کیوں جیت جاتا ہے اور شعور کیوں ہار جاتا ہے ?

تحریر :شمس الرحمن

ہماری سیاست میں شور اس لیے جیت جاتا ہے کہ کہ حکمران عوام کو جزباتی تقاریر کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ٹرینڈز اور ٹی وی چینلز پر سیاستدانوں کے جزباتی مباحثے کی وجہ سے عوام جذبات میں آجاتی ہیں۔ جہاں دلیل، تحقیق، کارکردگی اور سنجیدگی پیچھے رہ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں جزباتی سیاسی تقاریر کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ باشعور گفتگو اور دلیل پر مبنی باتیں کمزور پڑ جاتیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جو زیادہ شور مچاتا ہے وہ عوام کی نظروں میں زیادہ آتا ہے اور مقبولیت زیادہ ہو جاتی ہے اور شعور کی آواز کمزور ہو کر رہ جاتی ہے۔ سیاستدانوں کی جزباتی تقاریر، ٹی وی چینلز پر بحثوں کا شور اور سوشل میڈیا کی لڑائیوں کا شور عوام کو جزباتی بنا دیتے ہیں۔ اور عوام کو سوچنے، سمجنے، تحقیق اور دلیل سے دور لے جاتے ہیں۔ سیاستدانوں کی سیاسی ترجیح بلند آواز اور دلیل کم ہے۔
ہمارے ملک میں سیاستدان اپنی سیاست کو بچانے کے لئے جزباتی تقاریر کرتے ہیں اور ایسے نعرے لگا تے ہیں کہ عوام ان نعروں کی وجہ سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کھو دیتےہیں۔ عوام ان نعروں کے پیچھے پڑ جاتی ہے اور عوام کے سامنے اپنے آپ کو ہیرو تصور کر لیتے ہیں ۔ لوگ بغیر تحقیق کے سیاستدانوں کو ہیرو سمجھ لیتے ہیں۔ عوام کا مزاج
سیاستدان سمجھتے ہیں کہ عوام کا مزاج کیا ہے اس لیے سیاستدان کوشش کرتےہیں کہ میں عوام کے اندر ایسے کام کروں کہ عوام کو میری غلطی ان کو اچھی لگے، ان کو میرا جھوٹ بھی سچ لگتا رہے اور میری ناکامی بھی کامیابی بن جائے۔ ہماری تعلیم کی کمزوری کی وجہ سے تنقیدی سوچ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ سوال کرنے والوں یا آواز اٹھانے والوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔ ان کی آواز یا سوال کو دبا دیا جاتا ہے تاکہ عوام میں شعور پیدا نہ ہو جائے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم معاشرے کو سیاستدانوں کی جزباتی تقاریر اور میڈیا کی جزباتی مباحثے کے بجائے عوام کو شعوری اور دلیل پر مبنی باتیں بتائیں تاکہ عوام کو جھوٹ اور سچ کا پتہ ہو۔ ہمیں عوام کو ایسا شعور دینا ہوگا تاکہ عوام سیاستدانوں کی جھوٹی اور من گھڑت باتوں پر یقین نہ کریں۔