قارئین کرام: 2023ء کا نیا سال مبارک ہو‘ دعا ہے کہ یہ برس وطن عزیز پاکستان کیلئے ترقی و خوشحال لانے والا ثابت ہو‘ سال2022ء ملک میں جاری سیاسی کشیدگی اور معاشی بحران کی وجہ سے شہریوں کیلئے ہر روز ایک نئی مشکل اور گھمبیر صورت حال کا پیغام لاتا رہاہے ایک مزدور سے تاجر اور صنعت کار تک متاثر ہوئے نہیں رہا‘ڈالر کی قیمتوں میں عدم استحکام سے ملک میں غیر متوقع مہنگائی سے ہر شہری کا جینا دوبھر ہوگیا فیکٹریاں‘ کارخانے بند مزدور بے روز گار ہوکر گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہوکر رہ گئے قیام پاکستا ن کے بعد آج تک سیاسی گشیدگی کی وجہ سے ہمیں سقوط ڈھاکہ بھی دیکھنا پڑا لیکن پھر بھی سیاستدانوں کی جاری باہمی رسہ کشی اور سرد جنگ میں کمی نہ آسکی‘ ہر آنیوالی حکومت نے ملکی سطح پر آمدن کے ذرائع بڑھانے کیلئے کوششوں کی بجائے آئی ایم ایف سے قرضہ لیکر معاشی نظام کو رواں دواں رکھنے کی کوشش ترجیح دی‘ پہلی مرتبہ جنرل ایوب خان کے دور اقتدار میں 1958ء میں حکومت کو قرضہ لینے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا پھر یہ ایک ایسی روش چلی کہ غیر ملکی قرضہ کی وصولی ہی حکومتوں کی کامیابی کا زینہ ٹھہرا اور بدقسمتی سے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے‘ تحریک انصاف نے گزشتہ الیکشن سے قبل اپنی انتخابی مہم میں ملک کو غیر ملکی قرضوں سے نجات دلانے کی قوم کو خوشخبری دی اور عوام کو ملک میں معاشی انقلاب لانے کیلئے بڑے بڑے خواب دکھائے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان حکومت نے ماضی کی حکومت کو بھی مات دیتے ہوئے ان سے بھی بڑھ کر قرضہ لیکر ملک کا نظام چلانے کی کوشش کی قرضہ لینے کا حجم بھی بڑھتا گیا اب تو آئی ایم ایف نے قرضہ کی شرائط میں سختی کے باوجود بھی ہمارے حکومتیں ملک کو دلوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے ہر شرط قبول کرنے تیار ہے لیکن پھر قرضہ کی قسط جار ی نہیں کی جارہی ہے اب تو صورتحال اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ڈالر افغانستان میں سمگلنگ ہونے لگا ہے جس سے وطن عزیز میں ڈالر بھی نایاب ہوتاجارہا ہے ڈالر کی عدم دستیابی کی وجہ سے بیرون ملک سے آنیوالے اشیاء بالخصوص خام مال کی ڈیلیوری رکی ہوئی ہے جس سے مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہوچکا ہے اگر سیاسی بحران بدستور جاری رہا تو یہ سال ہمارے لیے خدانخواستہ مزید براثابت ہوسکتا ہے اس لیے نکلنے کیلئے ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ ہم کو زرعی طور پر مضبوط ہونے کی ضرورت ہے‘ ہمارا ملک دنیا کے چند بڑے زرعی ملکوں میں شمارہوتا ہے ہمارے پاس دنیا کا بہترین رزعی نظام موجود ہے لیکن زرعی اصلاحات اور اس جانب توجہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے کسان بھائیوں نے زراعت کو خیر باد کہہ کر کھیتی باڑی چھوڑ دی ہے‘ دالیں کسی زمانے میں ہمارے کھیتوں کی رونق ہوا کرتی تھی گندم‘ مکئی اور باجرہ کی فصل کسانوں کو سال بھر کیلئے خوشحال کردیتی تھی لیکن زرعی مشینری کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ بیج اور کھاد کی قیمتیں بھی کسان کی قوت خرید سے دور ہوگئی ہیں کسان اگر ادھار اور قرض سے بیج اور کھادیں خریدکرکھیتوں میں ہریالی لانے کا سبب بنتا ہے تو فصل کی کٹائی کے بعد جب فروخت کا وقت آتا ہے توحکومت کی جانب سے اس کا ریٹ کا تعین کسان کے پیدوار پر کیے جانیوالے اخراجات سے بھی بہت کم ہوتا ہے کاشتکارسال بھر کی محنت کے بعد کماحقہ معاوضہ نہ ملنے کی وجہ سے زراعت کے شعبہ سے دلبرداشتہ ہوتے جارہے ہیں انہوں نے کاشتکار ی کی بجائے دیگر کاروبار میں ترجیح دینا شروع کردی یہی وجہ ہے کہ آج ہم دالیں اور گندم بیرون ممالک سے درآمد کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور اب نئے سال آغاز کے تین ماہ بعد مارچ میں ہی گندم کی نئی فصل مارکیٹ میں آئے گی تب تک آٹا بحران شدید ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر ایک مزدور پانچ سو سے ایک ہزار یومیہ کماتا ہے اس کیلئے دیگر اشیاء ضروریہ کے سا تھ 130روپے فی کلو آٹا خریدنا مشکل ہوگیا ہے‘ روزگار کی مواقع ہونے کی وجہ سے آج کا پڑھا لکھا نوجواں ڈگریاں پاکستان میں حاصل کرتا ہے لیکن بے روزگاری کی وجہ سے بیرون ملک میں جاکر اپنے خدمات سرانجام دینے پر مجبور ہوچکا ہے۔ آئیں نئے سال کے آغاز میں اپنے آپ سے ایک وعدہ کریں کہ وطن کی ترقی و خوشحالی کے لیے حکومت کی جانب دیکھنے کی بجائے اس کا دست وبازو بنتے ہوئے اپنی صلاحیتوں و قابلیت کو اجاگر کریں اگر ٓاپ کے پاس ضرورت سے زائد رقم ہے تو اپنے آس پاس ایسے فرد اور عزیز و اقارب کو دیکھیں جو بے روزگار ہے یا وہ ایسے کام میں اپنی صلاحیتیں ضائع کر رہا ہے جس میں اس کی محنت زیادہ اور آمدن کم ہے توان کی مدد و تعاون کرکے اس کی صلاحیت و قابلیت کے عین مطابق کو کاروبار شروع کر وائیں تاکہ وہ نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے بلکہ معاشرہ میں باعزت شہری بن کر ملک و قوم کی خدمت کرنے کے قابل بن سکے‘ آپ کے نظر میں کوئی ایسی سڑک‘ شاہراہ جو کہ نکاس آب کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے تباہ و برباد ہو رہی ہے اس کیلئے بھی کچھ وقت نکال کر پانی کی نکاسی کا بندوبست کروادیں تاکہ اپ کی تھوڑی سے کاوش کی وجہ سے لوگوں کو سفری سہولیات میسر ہونے کے ساتھ کھیت اور منڈی کا سفر بھی آسانی سے ممکن ہو سکے‘ آپ کے علاقہ میں ایسے غریب بچے جن کے پاس کتابوں اور پنسلوں اور یونیفارم کیلئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں ان کیلئے آگے بڑھیں ان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے کردار ادا کریں ہوسکتا ہے آنیوالے کل میں وہ ایک ڈاکٹر‘ انجینئر‘ وکیل اور تاجر بن ملک کی بہتر طور پر خدمت کرنے کے قابل ہوسکے‘ چونکہ آج ہمار ی تعلیمی اداروں اور یونیورسٹی میں ڈگری دی جاتی ہے آج ہم مقامی سطح پر چھوٹی چھوٹی تنظیمات بنا کر ٹیکنیکل ادارے قائم کریں جس میں نوجوانوں کو ہنرسکھلائیں‘ ووٹ دیتے وقت سیاسی پارٹی‘ برادری ازم‘ زبان یا علاقائی تصب کی بجائے امیدوار کو پرکھنے و جانچنے کی کو شش کریں تا کہ آپ کو علم ہوسکے جس کا آپ انتخاب کرنے جا رہے ہیں وہ کتنا محب وطن ہے اس کا کردار کیا ہے اور ملک و قوم کی بہتر ی کیلئے اسمبلی میں کس حد تک ہماری آواز بلندکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
؎ افرادکے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
158