1,348

ہجرت نبویؐ کا تاریخی پس منظر

مولانا محمد اسرار الحق /اللہ تعالی نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں کی کامل رہنمائی اور تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا آپؐ کی ذات مبارکہ سے ہی اس جہان میں سرسبز شادابیاں آئیں اور ایمان اور اسلام کی گونج صحرائے عرب سے نکل کر وادی عجم کے چارہا جانب پھیلی یہ آپ ؐ کی مؤثر دعوت و تبلیغ ہی کا نتیجہ تھا آپؐ نبی و رسول‘ داعی و مبلغ‘ پیکر صدق و اخلاق‘ منبع جود و سخا اور بے شمار صفات عالیہ سے متصف تھے آپ ؐکی مکی و مدنی زندگی کے بے شمار پہلو ہیں جس میں سے ایک ایسا روشن باب ہے جس کو قرآن و حدیث اور تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے وہ ہجرت مدینہ ہے ہجرت کے معنی رخصت ہونا جدا ہونا اور وطن کو چھوڑنا ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وطن عزیز مکہ مکرمہ میں بہت ستایا گیا آپؐکے نرم و نازک بدن پر زخم دیئے گئے آپؐکے جسم مبارک کو پتھروں سے لہو لہان کیا گیاآپؐکو اسلام کی دعوت و تبلیغ سے روکنے کے لیے کئی حربے استعمال کئے گئے آپ ؐخود فرماتے ہیں کہ”تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے راہ خدا میں جتنی تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کیں اس سے زیادہ میں نے تنہا برداشت کی ہیں “آپ ؐ نے ہر تکلیف اور مصیبت میں صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایااور جب کفار مکہ آپ ؐ کو دعوت اسلام سے روکنے میں ناکام ہوئے تو مشرکین مکہ(ابو جہل‘ عتبہ‘امیہ بن خلف وغیرہ) نے اجلاس رکھا اور شیطان بھی ایک مشرک بن کر شریک اجلاس ہوا اور آپؐ کو (نعوذباللہ) قتل کرنے کی گھناؤنی سازش رچائی گئی ادھر اللہ تعالی کی طرف سے حضرت جبریل علیہ الصلاۃ والسلام وحی لے کر حاضر خدمت ہوئے جس میں اللہ تعالی نے کفار مکہ کی سازش سے مطلع فرمایا اور ہجرت کا بھی حکم فرمایا (سورۃالانفال)آپؐدوپہر کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ سب گھر والوں کو ہٹا دو کچھ مشورہ کرنا ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ ؐکی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ہی ہیں (اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح ہو چکا تھا اور رخصتی ابھی نہیں ہوئی تھی)حضورؐنے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے ہجرت کی اجازت فرمادی ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ مجھے بھی ہمراہی کا شرف عطا فرمائیے حضورؐنے درخواست منظور فرمالی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے دو اونٹنیاں ہجرت کے لئے پال رکھی تھیں عرض کیا کہ ان میں سے ایک اونٹنی آپ ؐ قبول فرما لیں حضورؐ نے فرمایا قبول ہے مگر میں اس کی قیمت دونگاحضرت بی بی اسماء بنت صدیق رضی اللہ تعالی عنہما نے سامان سفر تیار کیا اور اپنے کپڑے کو پھاڑ کر توشہ دان باندھا یہ وہ قابل فخر شرف ہے جس کی بنا پر ان کو ذات النطاقین (دو کپڑوں والی) کے معزز لقب سے یاد کیا جاتا ہے ادھر تقریبا سو کفار تلواریں لے کر نبیؐ کے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے حضورؐنے اپنے بستر پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سلایا اور فرمایا کہ یہ کچھ لوگوں کی امانتیں ہیں صبح ان کو واپس کرنا پھر ہجرت کرنا‘یہ نقطہ کی بات ہے کہ وہ لوگ نعوذباللہ قتل کے درپے ہیں اور آپؐنے ایسی حالت میں بھی رہتی دنیا تک انسانوں کو امانتداری کا درس دیا آپؐ اس قدر صادق اور امین تھے آپؐنے کفار کی آنکھوں میں خاک ڈالتے ہوئے ماہ صفر کی آخری تاریخوں میں سفر شروع فرمایااور اس سفر میں کئی معجزات پیش آئے مکہ معظمہ کی دائیں جانب پہاڑ میں واقع غار ثور میں تین دن قیام فرمایا قرآن پاک میں بھی اس غار کا ذکر کیا گیا ہے اس غار کا دہانہ اتنا تنگ تھا کہ لیٹ کر بمشکل آدمی اس میں داخل ہو سکتا تھا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فداکاری اور عشق رسالت میں فنائیت کے عظیم باب کو روشن کیا اول خود غار کو صاف کیا تاکہ اگر کوئی موذی جانور ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہ دے بعد ازاں آپ ؐ تشریف لے گئے اور باذن الٰہی غار کے دہانے پر مکڑی نے جالا تنا اور ادھر جب کفار مکہ نشان شناس کی مدد سے غار ثور تک پہنچے تو نشان شناس نے کہہ دیا کہ قدموں کے نشان یہاں تک ہیں اسی غار میں ہوں گے تو کفار نے اس کو بیوقوف گردانا اور کہا کہ اگر اس غار میں کوئی داخل ہوتا تو مکڑی کا جالا باقی نہ رہتا اس طرح سے اللہ تعالی نے حفاظت کی تین دن کے بعد آپؐنے مدینہ منورہ کی طرف سفر شروع کیا دوران سفر ام معبد کا خیمہ آیا تو آپؐ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ اس سے خورد و نوش کا سامان خرید لو تو بوڑھی خاتون نے جواب دیا کہ ایک بکری ہے جو بیمار ہے اور دودھ بھی نہیں دیتی آپ ؐنے فرمایا اجازت دینا آپ کا کام ہے دودھ دینا میرے اللہ کا کام ہے اس کے بعد آپؐ نے ایک برتن منگوایا اور خود اس بکری کا دودھ نکال کر فرمایا پہلے ام معبد کو پلاؤ اس کے بعد رفیق سفر کو پلاؤ پھر آپ ؐنے دوبارہ دودھ نکالا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو پلایا اور پھر آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نوش فرمایا ام معبد اس معجزہ کو دیکھ کر تعجب اور مسرت کی کیفیت میں رہیں خیمہ خوشبودار ہو گیا بیمار بکری شفایاب ہو گئی خشک تھنوں میں دودھ کا چشمہ جاری ہو گیا بیمار گھرانہ خوشحال ہو گیا ام معبد نے زندگی میں اتنا لذیذ دودھ نہیں پیا۔”مدینہ میں آمد“جب آپؐکی تشریف آوری کی خبر مدینہ منورہ پہنچی تو تمام عاشقان رسولؐنے مدینہ سے باہر نکل کر استقبال کیا ایک ترانہ سے مدینہ منورہ کے گلی کوچوں میں عشق رسالت و محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سماں بن گیا وہ ترانہ یہ ہے
طلع البدر علینا
من ثنیات الوداعع
وجب الشکر علینا
ما دعا للہ داع
ترجمہ،ہم پر چودہویں رات کا چاند طلوع ہوا وداع کی چوٹی سے ہم پر اس شخص کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے جس نے اپنی آواز کو خدا کی طرف بلانے کے لیے وقف کر رکھا ہے پھر مدینہ منورہ کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبا کے مقام پر قیام فرمایا اور وہاں پر تاریخ اسلام کی سب سے پہلی مسجد کی بنیاد رکھی گئی جس کو آج بھی قبا مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد رکھی اور وہاں سے تمام دنیا میں اسلام کی روشنی اور رشدوہدایت پھیلی اللہ تعالی ہم سب کو اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرما دے۔آمین!

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں