محمد نجیب جرال‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
تحصیل گوجرخان ایک قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مشتمل ہے، گزشتہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے یہاں سے کلین سویپ کرتے ہوئے تینوں نشستیں جیت لی تھیں، قومی اسمبلی میں راجہ جاوید اخلاص جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر افتخار احمد وارثی اور راجہ شوکت عزیز بھٹی براجمان ہوئے تھے، اس بار افتخار احمد وارثی تحصیل گوجرخان کی بالائی قیادت کے رویے سے نالاں ہوکر احتجاجاً الیکشن کی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں جبکہ راجہ شوکت عزیز بھٹی کی اہلیہ کو اپنی ہی پارٹی کے تحصیل صدر نے نااہل کرادیا ہے راجہ پرویز اشرف گزشتہ الیکشن میں بُری طرح شکست سے دوچار ہوئے تھے، لیکن وہ مایوس ہونے کے بجائے وہ مسلسل اپنے حلقے میں موجود رہے افتخار احمد وارثی اور راجہ شوکت عزیز بھٹی کا ووٹ بینک سے بھی انہیں فائدہ پہنچنے کا امکان ہے اس کے برعکس راجہ جاوید اخلاص نے ترقیاتی کام تو بہت کرائے لیکن حلقے میں اپنا دفتر نہ بنانے اور مسلسل پانچ سال فون بند ہونے کی وجہ سے وہ عام لوگوں کی پہنچ سے دور رہے، حلقے میں اپنے دورے کے موقع پر ان کا ٹھکانہ اپنے گھر موہڑہ نوری کے بجائے گوجرخان میں شاہد صراف یہ کسی اور مسلم لیگی رہنما کے گھر میں ہوتا تھاجس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کے آبائی گاؤں میں ہر گھر پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہرا رہا ہے مزید بدقسمتی یہ کہ افتخار احمد وارثی اور راجہ شوکت عزیز بھٹی سے شدید اختلافات نے بھی ان کے ووٹ بینک کو سخت نقصان پہنچایا راجہ شوکت عزیز بھٹی اور افتخار احمد وارثی کسی صورت میں بھی ان کی انتخابی مہم میں شرکت نہیں کریں گے ، اس سب کے باوجود سیاسی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ راجہ جاوید اخلاص وہ سیاسی جن ہے جسے ہرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، آنے والے دنوں میں وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرلیں گے تحریک انصاف کے چوہدری محمد عظیم بھی مسلسل حلقے میں رہے مذکورہ بالا دونوں امیدواروں کے برعکس ان کا اپنا گھر موضع تھاتھی میں ہے اور وہ مسلسل یہاں موجود رہتے ہیں لوگوں کے مسائل حل بھی کرتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں شریک بھی ہوتے ہیں تحریک انصاف کے علاوہ ان کا اپناذاتی ووٹ بینک بھی ہے اور حلقے میں وہ ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں، اس کے علاوہ اپنی غریب پروری کی وجہ سے وہ لوگوں میں مقبول بھی ہیں اور پسند بھی کیے جاتے ہیں متحدہ مجلس عمل اور تحریک لبیک کے امیدواران بھی سرگرم ہوگئے ہیں اور وہ مقابلے کی صف میں نہ ہونے کے باوجود بھی اچھا خاصا ووٹ بینک رکھتے ہیں،مذہبی حلقے اپنا ووٹ بینک ان دونوں جماعتوں کے پلڑے میں ڈالیں گے، ن لیگی حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے مذکورہ بالا دونوں جماعتیں اس کے ووٹ بینک پر اثر ڈالیں گی۔
صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 8 میں پیپلز پارٹی نے راجہ پرویز اشرف کے بیٹے راجہ خرم پرویز کو ٹکٹ دیا ہے، راجہ خرم پرویز حلقہ عوام کے لیے نامانوس اور غیر مقبول ہیں، سابق وزیر اعظم کا بیٹا ہونے کی وجہ سے ان میں عوام میں گھلنے ملنے کی اہلیت و صلاحیت نہیں ہے، راجہ پرویز اشرف کی طرح ان کا مزاج عوامی نہیں ہے اور ویسے بھی اس فیصلہ سے سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی نے محض خانہ پری کی ہے اس حلقے سے مسلم لیگ ن نے چوہدری محمد ریاض کو ٹکٹ دیا ہے، چوہدری محمد ریاض ماضی میں راجہ جاوید اخلاص سے زیادہ منجھے ہوئے سیاستدان تھے، وہ صوبائی وزیر کے علاوہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہے ہیں، سیاست کے میدان کے بڑے کھلاڑی تھے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ سیاسی صلاحیتیں جن کا ماضی میں وہ مظاہر کرتے رہے ہیں اب بھی موجود ہیں یا؟؟اس حلقے میں ان کا پارٹی کے علاوہ برادری کا ذاتی ووٹ بینک بھی ہے جس کا یقیناًوہ فائدہ اٹھائیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چوہدری جاوید کوثر اس حلقے میں مقبول لیڈر ہیں، افتخار احمد وارثی کے الیکشن نہ لڑنے کا علاقائی عصبیت کی بنیاد پرسب سے زیادہ فائدہ چوہدری جاوید کوثر کو پہنچے گا، پڑھے لکھے اور صاحب بصیرت انسان ہیں، گوجرخان شہر میں تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے راجہ طارق کیانی بھی ان کی جیت میں اہم کردار ادا کریں گے، اس کے علاوہ ثاقب علی بیگ ایڈووکیٹ کے گروپ کی حمائیت بھی سونے پہ سہاگہ ہوگی، ایم ایم اے کے امیدوار راجہ محمد جواد بھی مقابلے کی صف میں شامل ہوتے جارہے ہیں، گوجرخان شہر سے مذہبی و تجارتی تنظیموں کے علاوہ بااثر سماجی شخصیت راجہ عزیز بھی ان کی حمائیت کا اعلان کرچکے ہیں جنکا انہیں خاطر خواہ فائدہ پہنچے گاحلقہ پی پی 9 میں چوہدری ساجد محمود کی پوزیشن فیصلہ کن حیثیت اختیار کرچکی ہو، راجہ شوکت عزیز بھٹی کا بیس ہزار سے زائد ذاتی ووٹ بینک ہے، مسلم لیگ ن کا ٹکٹ محمد حمید ایڈووکیٹ کو مل چکا ہے، محمد حمید ایڈووکیٹ کی تعلیم اور شرافت پر کوئی سوالیہ نشان نہیں لیکن سیاسی بصیرت اور عوامی رابطہ کی کمی کی وجہ سے وہ دیگر قائدین کی طرح عوام میں مقبول نہیں، صرف ٹکٹ کا ملنا ہی کافی نہیں، اگر راجہ شوکت عزیز بھٹی کے بھائی کے کاغذات نامزدگی منظور ہوگئے جس کا کہ امکان ہے تو اصل مقابلہ راجہ فیصل عزیز بھٹی اور چوہدری ساجد محمود میں ہوگا،پیپلز پارٹی کا ٹکٹ چوہدری سرفراز خان آف راماں کوملا ہے، چوہدری سرفراز خان کا تعلق ایک بااثر سیاسی گھرانے سے ہونے کے باوجود عوام میں ان کی جڑیں نہ ہونے کے برابر ہیں، گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں انہیں محض 891ووٹ ملے تھے، سیاسی حلقوں کے مطابق راجہ پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے چوہدری ساجد محمود کا زور توڑنے کے لیے ٹکٹ دیا ہے، چونکہ چوہدری سرفرازخان اور چوہدری ساجد محمود کا تعلق ایک ہی گجر قبیلے سے ہے اور چونکہ گجر قبیلے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے اس لیے چوہدری ساجد محمود کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، چوہدری ساجد محمود کا ذاتی ووٹ بینک ہونے کے علاوہ پارٹی کا ووٹ ہے جو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس کے علاوہ چوہدری ساجد محمود اپنے حلقے میں عوام کے دکھ سکھ میں شریک رہے اس لیے عوام میں ان کی پذیرائی موجود ہے، مسلم لیگ ن میں اختلاف کا فائدہ بھی یقینی طور پر چوہدری ساجد محمود کو پہنچے گا، متحدہ مجلس عمل کے چوہدری عابد حسین ایڈووکیٹ ایک متحرک شخصیت ہیں جماعت اسلامی حلقہ پی پی 9کے امیر بھی ہیں، بہت کم وقت میں انہوں نے حلقے میں اپنا مقام بنایا ہے، شرافت، دیانت اور صداقت کے پیکر ہیں، نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں، اب وقت بتائے گا کہ قوم صداقت و دیانت کو ترجیح دیتی ہے یا روائتی سیاستدان ہی پذیرائی حاصل کرتے ہیں
98