میں کہتا رہا ہوں‘ میں کہہ رہا ہوں میں کہتا رہوں گا اور میں مرتے دم کہتا رہوں گا اس لیے کہ جو کچھ تھا وہ ہے اور جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ ہوئے جارہا ہے۔یہی میرا روگ ہے ایک وقت تھا کہ ہمارے چہروں پر اضمحلال کے بجائے اطمینان تھا ہمارے دلوں میں شک کے بجائے اعتماد تھا آج ہمارے چہروں پر اضطراب اور ویرانی ہے اور اس کی بڑی وجہ ہماری سیاست کی دنیا میں فتویٰ فروش ہے۔چورڈاکو لٹیرے‘غدار ملک دشمن اور ایجنٹ کے فتوے۔اب ہر وہ شخص جہنمی ہے جو کسی سیاسی جماعت سے اختلاف رکھتا ہے
جماعتیں اور جمیتیں قوم کو جمع کرنے کے بجائے اس میں تفرقہ ڈال رہی ہیں دلوں میں نفرتیں بٹھائی جارہی ہیں اور محبت کو درمیان سے اٹھا لیا گیا ہے اس طرح ایک عجیب دل برداشتگی کی کیفیت پیدا ہوگی ہے۔ ایسی ایسی لغو اور بے معنی بولیاں بولی جاتی ہیں کہ اب سننے والوں نے تنگ آکر کے سننا ہی چھوڑ دیا ہے اور یہ بکھرا سماج اس سیاست کی دین ہے جو زمین و آسمان کے سارے دکھوں کو دور کرنے کا دعویٰ کرتی ہے حق تو یہ ہے کہ قوم اپنے حق ناآشنا رہنماؤں سے عاجز آچکی ہے مقامات ہدایت و ارشاد میں اصولی سیاست اور عوام دوستی کے خواب دیکھائے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ اپنے مفادات کے دائرے سے باہر نکلنا تو درکنار اس بارے سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے اس وقت ملک جن داخلی اور خارجی صورتحال سے دوچار ہے
اس کے تدراک کے انقلابی سوچ اور لالحہ عمل کی اشد ضرورت ہے۔لیکن سیاست دانوں کی نشتر زنی اور مفاداتی فیصلوں سے زخم مزید بگڑتے جارہے ہیں ہم من حیث القوم ایک ایسے موڑ پر آچکے ہیں جہاں ریاست کی بقا کے لیے اتحاد و اتفاق ناگریز ہوچکا ہے اب حریفانہ چشمک کو بھول کر تمام قومی وسیاسی قوتیں یہ سمجھ لیں کہ وقت کبھی معاف نہیں کیا کرتا۔لیکن نہیں اسے نازک موقع پر بھی سیاسی قوتیں اس نازک صورتحال کے تحت فیصلے کرنے سے عاری ہیں اس وقت بھی فیصلے ذاتی مفادات اور اقتدار پرستی کے لیے کیے جارہے ہیں ہر حکومت میں اپوزیشن کا عتاب کا شکار رہنا ایک روایت رہی ہے اور اسی روایت کے تحت اس وقت پی ٹی آئی عتاب کا شکار ہے جس طرح پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی جبر کا شکار رہیں

اسی طرح اس وقت تحریک انصاف ریاستی جبر کا شکار ہے اور اس میں عمران خان کا غیرسیاسی رویہ اور غیرسیاسی فیصلوں کا بہت عمل دخل ہے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد اب نو مئی کے مقدمات میں ملوث ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کو سزائیں اور نااہلیوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے حلقہ پی پی آٹھ گوجرخان سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری جاوید کوثر بارے بھی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ وہ نو مئی کیس میں نااہل ہونے جارہے ہیں چوہدری جاوید کوثر کی ممکنہ نااہلی کو لے کر مسلم لیگ کے فالورز اور ورکرز اس نشست پر ہونے والے مبینہ ضمنی الیکشن میں الیکشن سے پہلے ہی اپنے امیدوار کی سو فیصد کامیابی کی کہانیاں سنا رہے ہیں
کہیں افتخار وارثی کی تصویر لگا کر انشاللہ ایم پی اے لکھا نظر آتا ہے تو کہیں شاہد صراف کے بطور امیدوار سامنے آنے کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہے جبکہ انتہائی اہم ذرائع کا ماننا ہے کہ اگر یہ نشست خالی ہوتی ہے تو اس پر مسلم لیگ راجہ جاوید اخلاص کو ٹکٹ جاری کیا جائے گا۔کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن جو کھیل گزشتہ پچھتر برسوں سے کھیلا جارہا اس نے عوام کو سیاست اور سیاست دانوں سے متنفر کرچھوڑا
ہے۔عوام کی اکثریت ایسی جمہوریت سے نالاں ہیں جس جمہوریت کی باگ ڈور بالادست قوتوں کے ہاتھوں میں ہو۔ہمارے سیاست دانوں نے خود کو بالادست قوتوں کے سامنے اس طرح سرینڈر کررکھا ہے کہ ان ہر فیصلے کو من وعن تسلیم کرنا اپنے ایمان کا حصہ بنا لیا ہے۔
کل یہی قوتیں ن لیگ کے لوگوں کو نااہل کروا رہی تھیں تب تحریک انصاف کے لوگ بغلیں بجا رہے تھے آج تحریک انصاف کے لوگ نااہل کیے جارہے ہیں اور ن لیگ محو رقص ہے یہ سوچے بغیر کہ کل پھر ان کا نمبر بھی آسکتا ہے۔یعنی ماضی سے کچھ سیکھا نہیں۔سیاسی جماعتیں دائرے کے سفر میں ہیں اور یہ دائرہ انہیں خود سے باہر نکلنے نہیں دے رہا۔اور یہی ہمارا المیہ ہے۔