189

کم عمرڈرائیورزکیخلاف مقدمات

ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کے پیچھے اس کے قوانین اور اس کو نافذ کرنے والے ادارے ہوتے ہیں جو اس ملک کو صحیح سمت کی طرف دھکیلتے ہیں اور صحیح سمت کا تعین اسی صورت ممکن ہے جب قانون اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔قانون بنانا اس پر عملدرآمد کرانا کسی ملک کی رعایا کی بہتر زندگی کے لیے کافی نہیں ہوتا قانون بنا تے وقت ان باتوں کا خیال رکھنا بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ اس نئے قانون کے رعایا پر کیا مثبت اور منفی اثرات مرتب ہونگے ان ممالک میں جہاں کی معیشت بہترین ہے وہاں ایک قانون رائج ہے کہ کو ئی بھیک نہیں مانگ سکتا اگرکو ئی بھی فرد اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کو قانون کے مطابق سزا تو ملتی ہی ہے

اس کے ساتھ ساتھ اتنی ہی سزا بھیک دینے والے کو بھی ملتی ہے لیکن یہ قانون بنانے سے پہلے حکومت وقت نے ایک ایسا قانون بھی بنایا جس میں بیروزگاروں کے لیے وظیفہ بے گھروں کے لیے گھر مہیا کیے جانے کی منظوری دینے کے بعد اس قانون کو اس ملک کے عوام پر لاگو کر دیا گیا اب جب عوام کو چھت اور کھانے پہننے کیلئے ان کو مناسب پیسے دیے جانے لگیں اس کے باوجود کوئی بھیک مانگے تو واقعی سزا دینا حکومت وقت اور اداروں کا فرض ہے اسی طرح بہت سے قانون بنانے سے پہلے ان پر ایک لمبی تحقیق ضروری ہوتی ہے لیکن پاکستان کا ایک ایسا قانون ہے جو راج تو سالوں سے ہے لیکن عملدرآمد کی اسوقت ضرورت پڑی جب سارا ملک اس کو قانون سمجھنا ہی بھول چکا ہے اوروہ ہے

ٹریفک قانون جس کے مطابق ٹین ایجرز کمسن بغیر لائسنس کا گاڑی موٹر سائیکل چلانا ممنوع ہے اصولی طور پر بہت ہی احسن اقدام ہے لیکن اس میں حکومت کی طرف سے بہت سی خامیاں بھی ہیں اول یہ کہ غربت افلاس کے مارے لاکھوں ایسے گھرانے ہیں جن کا گزر بسر مشکل سے ہوتا ہے اوپر سے ان کے خاندان میں کوئی بالغ فرد کمانے والا نہیں ہوتا مجبورا اس گھر کا کمسن بچہ کسی رکشہ یا موٹر سائیکل بائیکیا وغیرہ سے اپنے گھر کا خرچ چلانے پر مجبور ہوتا ہے اس کے علاوہ ان کے پاس کو ئی چارہ نہیں ہوتا اسی طرح بہت سے گھروالدین کی دولت سے محروم ہیں بچے سکول جاتے ہیں بالخصوص بچیوں کو ان کے بھائیوں کی مدد سے سکول پہنچایا جاتا ہے ایسے مجبور لوگ جن کے گھروں کا سسٹم ہی نابالغ بچے چلاتے ہوں ان کے لیے حکومت وقت نے کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے

قانون بنانے اس پر عملدرامد سے پہلے اس کے منفی اثرات کا تدارک بھی حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہے اس ملک کا ہر شہری اشیاُ ضرورت پر بجلی گیس کے بل حتی کہ ہر چیز پر ٹیکس ادا کرتا ہے بھیک مانگنے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی روکنے کا یہ انداز صرف پاکستان میں اپنایا گیا کمسن بچوں پر ایف آئی آر دی گئیں ان کا فیوچر خراب کیا جا رہا ہے کل کو وہ بیرون ملک جانے کے لیے کریکٹر سرٹیفیکیٹ بنوائیں گے تو ان کے نام پہ ایف آئی آر ہو گی یہ سراسر زیادتی ہے غریب کے ٹیکس سے ہر بے گھر کو گھر بے روزگار کو انکم سپورٹ اور بچوں کو سکول بسوں جیسی سہولتیں فراہم کرنے والے ممالک میں ہی یہ قوانین لاگو ہو سکتے ہیں پاکستان میں یہ قوانین کئی دھائیوں سے قانون کی کتابوں میں موجود تو ہیں

لیکن ان کی موجودگی کااحساس ابھی تک نہیں ہو رہااس کی سب سے بڑی وجہ جو بیان کر چکا کہ قانون پر عملدرآمد سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کا متبادل حل ہماری حکومتوں اور اداروں کے پاس موجود نہیں ہیں ہم اپنے وسائل کو ٹیکس دینے والوں کے بجائے ٹیکس پر پلنے والوں پر خرچ کرتے ہیں سرکاری ملازمین کو اربوں روپے کی بجلی پیٹرول اور ٹرانسپورٹ کی مد میں خرچ کررہے ہیں سرکاری ملازمین کی صحت سے تعلیم تک ہر سہولت مفت ہے حالانکہ ترقی یافتہ ممالک نے ترقی کی منزلیں ایسے طے نہیں کیں ملازمین کو صرف تنخواہ ملتی ہے

جس سے اس کو اپنے سارے معاملات نمٹانے پڑتے ہیں لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے حکومت وقت اس نازک وقت میں اگر صحیح اقدامات نہیں اٹھائے گی اسوقت تک کسی بھی قانون پر عملدرآمد ممکن نہیں کم عمر بے روزگاروں کو باعزت روزگار سکولوں کالجوں کے لیے سرکاری ٹرانسپورٹ جب تک نہیں دی جاتی تب تک کم عمر ڈرائیورز پر پابندی لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اوروہ اسی صورت ممکن ہے جب سرکار اپنے ملازمین کی عیاشیاں ختم کرکے رعایا کے لیے احسن اقدامات اٹھانے کی صدق دل سے تہیہ کر لے گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں