کشمیر،بہتے چشموں کی مدھم سرگوشیاں

کشمیر… جنت نظیر وادی، جہاں کبھی بہتے چشموں کی مدھم سرگوشیاں، بلند پہاڑوں کی شان اور چنار کے درختوں کی سرخی تہذیب اور شرافت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ وہی وادی آج ایک نئی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ یہ آگ بارود کی نہیں، بلکہ اسمارٹ فونز، ٹک ٹاک، اور سوشل میڈیا کی “ورچوئل آگ” ہے، جس نے خاص طور پر ہمارے معاشرے کی بیٹیوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب کشمیری لڑکیوں کی پہچان ان کی شرم و حیا، تہذیب و تمیز اور مضبوط خاندانی اقدار سے ہوتی تھی۔ آج وہی لڑکیاں ٹک ٹاک پر ناچتی، اداکاری کرتی، اور “وائرل” ہونے کی دوڑ میں اپنی اصل شناخت سے محروم ہو رہی ہیں۔ یہ محض ویڈیوز یا تفریح کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ اب یہ سوشل میڈیا کا وہ زہر بن چکا ہے جو دھیرے دھیرے اس معاشرتی بدن میں سرایت کر رہا ہے جس کی بنیاد ہی حیاء، غیرت اور مذہبی اقدار پر رکھی گئی تھی۔

بچیوں کا یہ غیر محتاط انٹرنیٹ استعمال ایک “لٹکتی ہوئی تلوار” کی مانند ہے، جو کسی بھی وقت ان کے کردار، خاندان اور معاشرتی وقار کو چیر سکتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور ہم، بطور والدین، اساتذہ، اور معاشرے کے باشعور فرد، محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

کسی بھی معاشرے کی بنیاد اس کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے کردار سے جڑی ہوتی ہے۔ اگر یہی بنیادیں متزلزل ہونے لگیں تو پوری عمارت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ افسوس کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا نے ان بچیوں کو ایک ایسی دوڑ میں شامل کر دیا ہے جہاں نہ منزل کا پتا ہے، نہ اخلاقی حدود کا۔

ہمارا تعلیمی نظام خاموش ہے، والدین لاپروا، اور ریاست بے نیاز۔ کوئی ان بچیوں کو یہ نہیں بتا رہا کہ سوشل میڈیا کی دنیا میں “وائرل” ہونا آپ کی کامیابی نہیں بلکہ اکثر آپ کے وقار کا جنازہ ہوتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر جیسے حساس خطے میں سوشل میڈیا کے استعمال پر فوری توجہ دی جائے۔ والدین کو صرف موبائل خرید دینا کافی نہیں، انہیں سکھانا ہوگا کہ بیٹیوں کی تربیت ویڈیوز سے نہیں، وقت اور توجہ سے ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں کو کردار سازی پر زور دینا ہوگا، اور ریاستی اداروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر آج یہ سلگتے چنار نظرانداز کیے گئے تو کل کی آگ پورے جنگل کو لپیٹ میں لے لے گی۔

یہ کالم کسی فرد، کسی خاندان یا کسی مخصوص طبقے کے خلاف نہیں، بلکہ ایک اجتماعی جھنجھوڑ ہے۔ وہ جھنجھوڑ جو ہمیں بیدار کر سکتی ہے، اگر ہم سننے کو تیار ہوں۔
تحریر: طارق محمود آفاقی

اپنا تبصرہ بھیجیں