پروفیسر محمد حسین/بنیادی طور ایک ملک کی مجموعی آمدنی اور مجموعی خرچ کو کرنٹ اکاؤنٹ کہا جاتا ہے اگر یہ فرق جمع میں ہو تو یعنی آمدن زیادہ اور خرچ کم توکرنٹ اکاؤنٹ سر پلس کہتے ہیں اور اگر یہ فرق منفی میں ہو تو یعنی خرچ زیادہ اور آمدنی کم ہو تو اس کو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کہتے ہیں آمدنی میں برآمدات‘سرمایہ کاری‘بیرونی ملک سے بھیجا گیا پاکستانی روپیہ اور ٹیکس کی مد میں اکٹھا کیا گیا روپیہ شامل ہے جبکہ خرچ میں درآمدات‘قرضہ کی ادائیگیاں اور حکومتی اخراجات شامل ہیں ماضی کی حکومتوں میں ہماری آمدن کم تھی اور اخراجات زیادہ تھے کیونکہ ہماری معیشت کی بنیاد جن شرائط پر رکھی گئی تھی وہ ایک نظر کا دھوکہ تھا لیکن اس نے ملک کو کھوکھلا کر دیا تھا ڈالر جس کو ایک سو روپے پر زبردستی روک رکھا تھا اور اس کو ایک سو روپے پر رکھنے کے لیے سالانہ پانچ بلین ڈالر مزید قرضہ لے کر مارکیٹ میں رکھا جاتا تھا تاکہ اس سے ملک میں ڈالر کی قلت پیدا نہ ہو اور یوں ڈالر کی قیمت ایک سو روپے ہی رہے اس سے ہمارے روپے کی قدر بڑھتی گی اور ہماری اشیاء بین الاقوامی مارکیٹ میں مہنگی ہوتی گئیں اس لیے ہمیں درآمدات سستی پڑنے لگیں لوگوں نے اپنے صنعتی یونٹس بند کرکے دو سرے ممالک سے اشیاء درآمد کرکے اپنے ملک کے لوگوں کو دینی شروع کر دیں کیونکہ اپنے ملک میں بنانے کے بجائے اشیاء سستی پڑتی تھیں لہذا ہمارے خرچ بڑھتے گئے اور سرمایہ کاری کم ہونی شروع ہو گئی اور پانچ سالوں میں ایک بڑی سرمایہ کاری صرف سی پیک تھی اس لیے ہمارا خسارہ بڑھنے لگا اور ہمارا ماہانہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ دو بلین ڈالر سے تجاوز کر گیا اب ایک ملک جس کی آمدنی کے راستے تقربیا بند ہو چکے ہیں اور اس کے لیے ماہانہ دو بلین ڈالر صرف اپنے اخراجات چلانے کے لیے درکار ہیں موجودہ حکومت نے ڈالر کی قیمت کو مستحکم رکھنے کے لیے پانچ بلین ڈالر سالانہ قرضہ نہیں لیا جس سے ڈالر کا ریٹ مارکیٹ ریٹ کے مطابق طے ہونے لگا ڈالر اگر مارکیٹ ریٹ پر ہوتا ہے کہ اگر مارکیٹ میں ڈالر کم ہو جائے تو ڈالر مہنگا ہو جاتا ہے اور اگر ڈالر کثرت میں ہو جائے تو ڈالر سستا ہو جاتا ہے اور چونکہ اس وقت ڈالر ریٹ اپنی اصل مارکیٹ ریٹ پر نہیں تھا اس لئے اس کی قدر میں نمایاں فرق دیکھنے کو ملتا تھا اور ڈالر کے ریٹ کو استحکام حاصل کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا حالانکہ اب ہم ڈالر کی قیمت مستحکم رکھنے کے لیے پانچ بلین ڈالر سالانہ مارکیٹ میں بھی نہیں رکھ رہے اس سے جہاں ہمیں غیر ضروری خرچ سے جان چھوٹی وہاں برآمدات بیرونی دنیا کے مقابلہ سستی ہو گئی ہیں مثلا افغانستان کی کرنسی ہماری کرنسی سے اوپر ہے افغانستان میں پاکستان کی اشیاء زیادہ تعداد میں برآمد ہو رہی ہیں اور افغانستان‘پاکستان کے لیے بہت اچھی مارکیٹ ثابت ہو رہی ہے اور مستقبل میں اگر وہاں سے بھارت کی چھٹی ہو گئی توافغانستان مارکیٹ میں پاکستان کامکمل قبضہ ہو سکتا ہے اس طرح پاکستان کی برآمدات بڑھنے لگیں گی اور درآمدات میں کمی واقع ہو جائے گی اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا اور بیرونی ملک سے پاکستانیوں کے بھیجے گئے روپوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگے گا بعض بنکنگ چینلز کو اسان بنانا ضروری ہے تاکہ بیرون ملک پاکستانی حوالہ اور ہنڈی کے بجائے بنکنگ چینلز سے روپے بھیجنے میں آسانی محسوس کریں اور ٹیکس وصولی میں بھی اضافہ ہو 2018میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد تقربنا چودہ لاکھ تھی اور 2019میں کے ڈیٹاکے مطابق ایک سال میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد پچیس لاکھ تک پہنچ گئی ہے حکومتی اخراجات میں بھی کمی واقع ہو ئی ہے اور یوں مالی سال 2019-20 کے پہلے مہینے میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ 579ملین ڈالر رہا جبکہ پچھلے سال جولائی کے مہینے میں یہ مالی خسارہ 213بلین ڈالر رہا اگر ہم 2019کا کرنٹ اکاونٹ خسارے کو چھ سو ملین ڈالر کا اوسط رکھ کر دیکھیں تو یہ سالانہ سات بلین ڈالر بنتا ہے جبکہ سابقہ حکومت کے دور میں بیس بلین ڈالر سے زیادہ ہوتا تھا اور عوام کو اس دوران سحت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تازہ اطلاعات کے مطابق ہماری برآمدات چوبیس فصید بڑھ گئی ہیں اور پاکستان کی حکومت کے مثبت اقدامات کی وجہ سے ہمارا کرنٹ اکاونٹ 80کروڑ ڈالر سرپلس ہو گیا ہے اور عوام یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اب منزل ہمارے قریب ہے امید ہے اس مالی سال کے آخر تک ہماری میشعت مستحکم فیز اور ترقی والی فیز میں داخل ہو جائے گی اور پھر اس کے ثمرات اس ملک کے عوام کو ملیں گے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی برآمدات کو زیادہ سے زیادہ بڑھائیں اس کے علاوہ فضول اور غیر ضروری اشیاء کو درآمد کرنے سے گریز کریں اور ا س طرح کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کرنٹ اکاونٹ سرپلس میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو ئیں گے اور یہ ملک اور قوم کے لیے خوش آئند ثابت ہو گی اور ہمارا ملک پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔
199