تحریر: حماد چوہدری
گوجرخان اور گردونواح کے عوام کے لیے زندگی کا اہم ذریعہ ڈونگی ڈیم آج سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ پہاڑی کٹائی، بارشوں سے آنے والا ملبہ اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کے مجوزہ سیوریج منصوبے نے اس ڈیم کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے۔گزشتہ چند ماہ کی بارشوں نے بھاری مقدار میں مٹی اور کچرا ڈونگی ڈیم میں لا کر پھینکا ہے۔ نتیجتاً ڈیم کی گہرائی کم ہو رہی ہے اور پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔
اگر یہی صورتحال جاری رہی تو گرمیوں میں جب پانی کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی، ڈیم خالی ہو جائے گا۔ اس کا براہِ راست اثر نہ صرف زراعت پر پڑے گا بلکہ ڈونگی، دھمہ، بڑکی چوہان اور حبیب کنیا ل کے گھروں میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی۔محکمہ موسمیات پہلے ہی آئندہ سال 22 فیصد زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کر چکا ہے۔ اگر ڈیم بھرنے کی گنجائش نہ رہی تو یہ بارشیں علاقے کے لیے برکت کے بجائے تباہی کا سامان بن جائیں گی۔ سیلابی ریلے نہ صرف ڈونگی ڈیم بلکہ آس پاس کے گاؤں کو بھی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
اہلِ علاقہ کا ایک اور بڑا خدشہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے منصوبے ہیں جن کے مطابق فلٹر لگا کر سیوریج کا پانی ڈونگی ڈیم میں ڈالا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ فلٹر کب تک مؤثر رہیں گے؟ بحریہ ٹاؤن کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں گندے پانی نے قدرتی وسائل کو برباد کر دیا۔ اگر یہی سلسلہ یہاں شروع ہوا تو یہ ڈیم بھی آلودگی کا شکار ہو جائے گا۔ڈونگی ڈیم کی تباہی صرف سطحی پانی کے نقصان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے خطے کے زرعی اور زیرِ زمین پانی کے نظام کو بھی متاثر کرے گی۔ ایک ڈیم کی موجودگی کئی کلو میٹر تک زیرِ زمین پانی کی سطح کو قائم رکھتی ہے، اور اگر یہ سہارا ختم ہو گیا تو زمینیں بنجر اور کھیت ویران ہو جائیں گے۔
اہم سوال یہ ہے کہ اہلِ علاقہ برسوں سے اس معاملے پر خبردار کر رہے ہیں مگر متعلقہ ادارے اور سیاسی قیادت خاموش کیوں ہے؟ مقامی مکینوں کے مطابق اسمارٹ سٹی کے مالک سیاسی تعلقات اور اثر و رسوخ کی وجہ سے کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ کیا قانون یہاں اندھا ہے؟ کیا بڑے سیاسی رہنما، خصوصاً راجہ پرویز اشرف، اس معاملے میں صرف تعلقات کی وجہ سے خاموش ہیں؟مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مقامی صحافت، جو دیگر معاملات میں بڑھ چڑھ کر بولتی ہے، اس مسئلے پر پراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
اگر کل کو گوجرخان کسی بڑے سیلاب یا تباہی کی لپیٹ میں آ گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کیا مقامی سیاسی و صحافتی قیادت اس سوال کا جواب دینے کو تیار ہے؟علاقہ مکینوں کا مطالبہ ہے کہ پہاڑی کٹائی کو فوری طور پر روکا جائے، ڈونگی ڈیم کی ڈیسلٹنگ ہنگامی بنیادوں پر کی جائے اور سیوریج منصوبے کو مسترد کیا جائے۔ اگر آج کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو کل کو امدادی اعلانات اور سیاسی وعدے بے سود ہوں گے۔ڈونگی ڈیم صرف پانی کا ذخیرہ نہیں بلکہ پورے علاقے کی زندگی اور زراعت کا ضامن ہے۔ یہ معاملہ آج کی بے حسی نہیں بلکہ آنے والے کل کی بربادی کا الارم ہے