اللہ تعالیٰ کی ذات ہر انسان سے اس کی صلاحیت کے مطابق اس کے حصے کا کام دنیا میں ضرور لیتی ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ کون سا کام کس سے لینا ہے۔
تقابل ادیان کا کام اس صدی میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے لیا جا رہا ہے۔جیسے ماضی قریب میں ختم النبوت پر کام مولانا مودودی،عطا اللہ شاہ بخاری،علامہ احسان الٰہی ظہیر،حق نواز جھنگوی اور علامہ خادم حسین رضوی سے لیا گیا تھا۔اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا
کہ کون سا کام کس کے حصے میں آئے گا۔یہاں پر ایک بات قابلِ غور ہے کہ جب سے عالمی شہرت یافتہ مناظر اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورہ پاکستان شیڈول ہوا ہے تب سے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے
۔ماضی قریب میں جب بھارت نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے لیے خطرہ محسوس کیا تو انھوں نے مختلف الزامات لگا کر ڈاکٹر صاحب کو جلا وطن کر دیا اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ ہندوؤں کو ان کی کتابوں سے حوالے دے کر ان کو مسلمان کر رہے تھے
آئے روز بھارت میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔اسلیے ڈاکٹر صاحب پر دہشتگردی الزام لگا کر جلا وطن کر دیا عالمی سطح پر بھی ڈاکٹر صاحب کے حق میں آواز نہیں اٹھائی گئی جس کی بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ یہود ونصاریٰ بھی ان کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ محسوس کرتے تھے
کیونکہ سب سے پہلے نائن الیون کے واقعے پر ڈاکٹر صاحب نے ہی امریکہ کو دہشتگرد ملک قرار دیا تھا۔آئے روز یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف اسلام (قرآن) پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں.جن میں عیسائیوں کے مشہور ڈاکٹر ولیم نے تقریباً چھتیس کے قریب اعتراض کا جواب دیا مخالف مناظر بھی ڈاکٹر صاحب کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہیں۔اپنے ہی گراتے ہیں
نشیمن پر بجلیاں بجائے اس کے تمام امت مسلمہ یکجا ہو کر ڈاکٹر صاحب کا ساتھ دیں لیکن یہاں جب کچھ لوگوں کو اپنے لیے خطرہ محسوس ہوا تو انھوں نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کر دیا۔کچھ ویڈیوز کلپ سیاق وسباق سے ہٹا کر پیش کیے جا رہے ہیں۔انسان خطا کا پتلا ہے کہی نہ کہی کوئی اونچ نیچ ہو جاتی ہے۔اگر توحید کا اصل حق ادا کیا جائے تو عین مْمکن ہے کہ خود ساختہ دائرے میں بنائی گئیں
عزتیں (اصول) پامال ہوں یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر چھوڑ دینا چاہیے اور یہاں پر افسوس کا مقام یہ ہے
ن نوجوانوں کو ورغلایا جا رہا ہے جنہوں نے ابھی ابھی ڈاکٹر صاحب کا نام سنا تھا اور ان کا کام دیکھنے جا رہے تھے لیکن اس سے پہلے ہی ان کے ذہینوں میں فرقہ واریت کا زہر گول دیا گیا ہے۔سورہ العمران میں فرقہ واریت کی مذمت کی گئی ہے۔مال کی زیادہ طلب نے دین کے سب سے بڑے کام دعوت تبلیغ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کا آپ صل? الل? عل?? وال? وسلم خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر اللہ کو گواہ بنا کر صحابہ کرام سے وعدہ لیا تھا
۔کہ دین اسلام کو پھیلایا جائے۔لیکن میرپور کے چند مشہور علماء اکرام کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے یورپ کے بھائیوں سے منتیں ترلے کروا کر یورپ کے ویزے لگوائے ہیں۔اور کچھ علماء اکرام تو پہلے مال انوسٹ کیا تاکہ متعلقہ پلیٹ فارم تک پہنچا جا سکے اور پھر وہ سیزن لگا سکیں۔اب دو تین سالوں سے اس میں تیزی آ گئی ہے ہر سال کوئی نہ کوئی مشہور عالم دین اس فہرست میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر ان کے کام کو پونڈو اور ڈالروں کے عوض دیکھا جاسکتا ہے۔مزہ تو تب ہے یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنے علم کی بنا پر چیلنج کر کے دائرہ اسلام میں شامل کیا جائے۔یہ اپنے ہی لوگوں اور گدی نشینوں کی جیبیں خالی کرانے کے چکر میں سیزنل وزٹ کرتے ہیں
۔اور جو کوئی بھی دین اسلام کے لیے مخلص اور اللہ کی رضا کے لیے کوشش کرے ان کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں جس کی حالیہ مثال ڈاکٹر ذاکر نائیک ہیں۔گورنمنٹ سے اپیل ہے کہ سوشل میڈیا پر فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو فل سیکیورٹی فراہم کی جائے۔
تحریر محمد حسیب چوہدری