چک بیلی خان بائی پاس کا افتتاح

چک بیلی خان شہر سے ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے وفاقی وزیرغلام سرور خان نے چک بیلی خان رنگ روڈ کی منظوری دی پراجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد پی او ایل چوک میں جلسہ کا اہتمام کیاگیا جلسے کی تیاریاں شروع ہی تھیں کہ پی ٹی آئی کے اپنے ہی کارکن جلسے کو ناکام بنانے کیلئے بر سر پیکار ہو گئے یہاں تک کہ ادھر جلسہ شروع ہوا تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے کارکن ہی اپنے ساتھیوں کو جلسے میں شرکت سے منع کرنے لگے جلسہ شروع ہوا تواس کے بعد کرسیاں گننے کا عمل شروع ہو گیا معلومات کے مطابق لگ بھگ دو ڈھائی سو لوگوں کی جلسہ میں شرکت بتائی گئی اور جلسہ کو ناکام قرار دیا جانے لگا دوسری جانب جلسہ کروانے والی انتظامیہ کے لوگ ایک طرف جلسہ کو کامیاب قرار دے رہے تھے تودوسری طرف جلسہ میں شرکت نہ کرنے والے کارکنوں کو کوسنے کا عمل بھی جاری تھا جلسہ ختم ہو گیا ا س کے بعد سوشل میڈیا محاذ بن گیا یہ بحث شروع ہو گئی کہ کس گاؤں سے کتنے لوگ جلسہ میں شریک ہوئے سب سے کم لوگ چک بیلی خان کے شہری علاقہ سے شریک ہونے کے دعوے پر چک بیلی خان شہر کے فوکل پرسن نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہ بولنے کا دعویٰ کر نے کے الفاظ لکھ کرچک بیلی خان سے96افراد کی جلسہ میں شرکت کی لسٹ اپنی فیس بک آئی ڈی پر وائرل کر دی لسٹ وائرل ہوتے ہیں لسٹ میں موجود کئی لوگوں نے اپنے وڈیو بیان کے ذریعے لسٹ میں نام کی شمولیت کو غلط قرار دیا تو زندگی میں کھبی جھوٹ نہ بولنے کے الفاظ لکھنے والے فوکل پرسن کے دعوے کی قلعی بھی کھل گئی اگر فوکل پرسن کے اس دعوے کو ہی درست مان لیا جائے تویہ بات قابل فکر ہے کہ غلام سرور خان نے الیکشن جیتنے کے وقت چک بیلی خان سے398ووٹوں کی برتری حاصل کی تھی باقی جو برابری کے ووٹ تھے وہ الگ تھے فوکل پرسن کی وائرل کردہ لسٹ کے مطابق برتری اور برابری سمیت کل حاصل کردہ ووٹوں میں سے صرف 96لوگ اب غلام سرور خان کے ساتھ رہ گئے ہیں خیر اگر کچھ ایسے بھی گن لئے جائیں جو جلسے میں نہیں آئے صرف ووٹ دیں گے تو تعداد تھوڑی سی بڑھے گی فوکل پرسن کی لسٹ کے مطابق بھی غلام سرور خان کو کافی لوگ چھوڑ چکے ہیں یہ سب کیوں ہوا کیسے ہوا اور کب سے ہوااس بات پر اگر غور کیا جائے تو یہ سب غلام سرور خان کا کیا دھرا ہی نظر آتا ہے الیکشن جیتنے کے بعد غلام سرور خان نے لوگوں کو ساتھ چلانے کی بجائے کرنل(ر) اجمل صابر راجہ کو دیوار کے ساتھ لگانے کیلئے متوازی گروپ بنانے کی بنیاد رکھی جس پر پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور اپنے گروپ میں ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جو صرف وقتی فائدے اٹھانے کیلئے سامنے آئے اور ان میں سے بھی کئی لوگ مقاصد پورے نہ ہونے پر کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں یعنی اب غلام سرور خان کے اپنے گروپ کے لوگ بھی تقسیم ہیں کیونکہ انھوں نے خود اقتدار سنبھالتے ہی کارکنوں کو تقسیم کا فارمولا سکھایا ہے اگر اس کی بجائے وہ ضرب کا فارمولا سکھاتے تو کارکن بہت زیادہ بڑھ چکے ہوتے اتنے دنوں کے حالات دیکھ کر حاصلِ بحث یہی سمجھ آیا ہے کہ بات جلسہ بڑا یا چھوٹا ہونے کی نہیں حقیقت یہ ہے کہ وفاقی وزیر غلام سرور خان چک بیلی خان رنگ روڈ، جوڑیاں ہسپتال اور سولہ دیہاتوں کے لئے گیس کی فراہمی کی منظوری دلوانے کے بڑے منصوبے دینے کے باوجود کامیابی کی بجائے ناکامی کی طرف گامزن ہیں یہاں غلام سرور خان کو یہ بات ضرور سوچنی چائے کہ ان کی حیثیت بھی تب ہی بنتی ہے جب ان کی پارٹی کی کوئی حیثیت ہو گی جس کے لئے ضروری ہے کہ وہ حلقہ کے کارکنوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کریں اور نچلی سطح پر بھی ایسے لوگوں کو ذمہ دارایاں دیں جو لوگوں کو ساتھ چلانا جانتے ہوں خود بھی حلقہ کے سرکردہ لیڈران کے ساتھ محاذ آرائی کی بجائے انھیں قریب لانے کی کوشش کریں تاکہ آئندہ ٹکٹ وہ خود لیں یا ان کی پارٹی کا کوئی دوسرا فرد میدان میں آئے جیت ان کی پارٹی کی ہو ایک سینئیر سیاسی لیڈر کو زیب بھی یہی دیتا ہے اگر انھوں نے ایسا رویہ رکھا جو اب تک رکھا ہوا ہے تو ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو سکتا ہے جو اسی حلقہ میں ان کے سیاسی مخالف چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ہوا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں