سابق وزیر اعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے یونین کونسل تخت پڑی میں سوئی گیس کی فراہمی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں افسوس ہے
کہ چوہدری نثار علی خان اسمبلی میں موجود نہیں چوہدری نثار علی خان جیسے لوگ اسمبلی کی زینت ہوتے ہیں لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے نمائندے کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا کریں
انھی راجہ پرویز اشرف صاحب نے کچھ عرصہ قبل جب اپنے بیٹے کو خرم پرویز کو چوہدری نثار علی خان کے مقابلے میں الیکشن لڑوایا تھا تو چک بیلی خان کے مرکزی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے
کہا کہ میں نے چوہدری نثار کی گردن سے سریا نکالنے کیلئے اس حلقہ میں انٹری ماری ہے اور یہاں اپنے بیٹے کو سیاست کی ٹریننگ دینے کیلئے
اتار ا ہے وزارت عظمیٰ کے انتہائی بڑے عہدے پر کام کرنے والے آدمی کے ان دونوں بیانات پرچوہدری نثارکے حلقہ کے لوگوں کی جانب سے انتہائی ناراضگی دیکھنے کو ملی ہے
اپنے بیٹے کو سیاست کی ٹرینگ دینے کے بیان پر ان کی مخالف جماعت کے پلیٹ فارم سے جلسہ میں خطاب کے دوران یونین کونسل چک بیلی خان کے سابق چئیر مین چوہدری الطاف پرواز نے کہا
کہ ہمارا حلقہ کوئی ٹریننگ سنٹڑ نہیں راجہ پرویز اشرف نے ہمارے حلقہ کے ووٹرز کی توہین کی ہے یہ جسے چاہیں گے اپنا نمائندہ چنیں گے بعد میں پتا
چلا کہ خرم پرویز کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ دراصل چوہدری نثار علی خان کی گردن سے سریا نکالنا نہیں بلکہ وہ نورا کشتی تھی جس میں چوہدری نثار کے مخالف ووٹ کو تقسیم کر کے ان کیلئے جیتنے کی
راہ ہموار کرنا تھایونین کونسل تخت پڑی میں خطاب کے دوران داغا جانے والا بیان جب سوشل میڈیا پر آیا تو اس پر ٹیگ کر کے ایک نوجوان ثاقب متیال نے لکھا تھا
کہ راجہ صاحب ہارے ہوئے گھوڑے سے میدان مارنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں یہ کمنٹس کرنے والا ثاقب متیال تحصیل گوجر خان یعنی راجہ پرویز اشرف کے حلقہ میں پیدا ہونے والا شخص ہے اور چک بیلی خان میں مستقل سکونت اختیار کئے ہوئے ہے
یعنی چوہدری نثار علی خان اور راجہ پرویز اشرف دونوں کو بخوبی جانتا ہے چوہدری الطاف پرواز اور ثاقب متیال کے جوابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ چوہدری نثار علی خان کے حلقہ کے لوگ کوئی للو پنجو سوچ کے حامل نہیں
جنہیں اپنا نمائندہ چننے کیلئے راجہ پرویز اشرف صاحب کی راہنمائی کی ضرورت ہو گی یہ لوگ خود عقل و فہم رکھتے ہیں ماضی قریب میں صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے دو راہنماؤں اسد قیصراور اعظم سواتی نے بھی کچھ ایسے ہی الفاظ میں چوہدری نثار علی خان کی
تعریف کی یہاں تک کہ اسد قیصر صاحب نے تو انھیں شمولیت کی دعوت دے ڈالی اور میڈیا نے تو پی ٹی آئی میں شمولیت کی خبر تک اڑادی یہ حالات دیکھ کر چوہدر نثار مخالف پی ٹی آئی کا ووٹر انتہائی مایوسی کا شکار ہوا
جس پرپی ٹی آئی کے راہنماؤں چوہدری محمد امیر افضل اور کرنل اجمل صابر راجہ نے کارکنوں کے خدشات دور کئے بانی پی ٹی آئی جناب عمران خان بھی کئی دفعہ اپنے کارکنان کے جذبات اور سوچ کو مد نظر رکھے بغیر چوہدری نثار کو تقاریر کی حد تک شمولیت کا کہتے رہے ہیں
حالانکہ میرے والد مرحوم چوہدری غلام جیلانی جب پی ٹی آئی کے پہلے الیکشن میں قومی اسمبلی کیلئے چوہدری نثار علی خان کے خلاف الیکشن لڑنے لگے
تو بانی پی ٹی آئی جناب عمران خان نے انھیں کہا کہ جیلانی صاحب آپ خیال رکھنا کہ کہیں چوہدری نثار علی خان کے دباو ئ میں آ کر آپ پیچھے نہ ہٹ جانا عمران خان صاحب کے ساتھ کئے گئے
وعدے کے مطابق مرحوم چوہدری غلام جیلانی کی اگلی نسل اور ان کے ساتھ شامل ہونے والے تمام ووٹرز اب تک عمران خان کے ساتھ کاندھا ملائے کھڑے ہیں
یہ لوگ عمران خان کی جانب سے دئیے گئے ٹکٹ پر ہر ٹکٹ ہولڈر کے ساتھ پارٹی کیلئے بھرپور کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔پی ٹی آئی گذشتہ الیکشن میں غلام سرور خان کو اس حلقہ میں لائی تو عوام نے بھرپور فتح دلائی اس دفعہ کرنل اجمل صابر راجہ کو ٹکٹ دیا گیا تو انھوں نے فتح سمیٹی یہ الگ بات کہ فارم47آڑے آ گیا
اگر راجہ پرویز اشرف صاحب نے اسمبلی میں چوہدری نثا رعلی خان کو دیکھنا تھا تو بہتر تھا کہ فارم 47میں اپنا دوسرا نمائندہ لانے کی بجائے انھیں لے آتے یااپنی پارٹی میں شامل کر کے ہاتھ باندھ کر بلاول بھٹو کے پیچھے کھڑا کر دیتے چوہدری نثار علی خان اگر اتنے اسمبلی کی زینت ہوتے
تو ان کے اپنے سابقہ قائد میاں نواز شریف ہی انھیں ساتھ رکھ لیتے لیکن میاں صاحب نے ایک جیتنے والے امیدوار کو ٹکٹ تک نہ دیا راجہ پرویز اشرف صاحب کی اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایوان کے اندر چوہدری نثار علی خان کی بے عزتی کی گئی
مگر پرویز اشرف صاحب زینت کے حق میں کچھ نہ بولے چوہدری نثار علی خان کے اپنے حلقہ کے لوگوں نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ چوہدری نثار علی خان کا عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہے
چوہدری نثار علی خان کے 35سالہ دور میں ان کے حلقہ میں انتقامی طور پر زندہ لوگوں کے قتل کے مقدمات تک بنائے لاوارث لاشیں لوگوں پر قتل کے الزام میں ڈالی گئیں جبکہ مقتول زندہ برآمد ہونے کے بعد بے گناہ مقدمہ بھگتنے والوں کے ناکردہ جرم کی ناجائز سزا کا کوئی ازالہ بھی نہ کیا گیا غنڈوں کے ذریعے صحافیوں پر پرتشدد کاروائیاں کروائی گئیں
اور اس پر بھی شرمندہ ہونے کی بجائے آصف رسول قادری جیسے اپنے طرفدار صحافی کو اپنی محفل سے بھی نکالا گیا جہاں پل بنائے وہاں لوگوں کی خواتین کی شلواروں کا ذکر کر کے بے ہودہ الفاظ استعمال کئے سڑکوں کے افتتاح کے مواقع پر زمینداروں کے گدھوں کا ذکر کر کے ان زمینداروں کی توہین کی گئی
یہاں تک کہ ووٹرز کو یہ بھی کہہ دیا کہ آپ مجھے ووٹ مت دیں مجھ پر اللہ کا کرم ہے میں آپ کے ووٹوں سے بہت آگے نکل چکا ہوں اس وقت ان کے حلقہ میں قبضہ مافیا جو راج قائم ہو چکا ہے یہ سب بیج چوہدری نثار علی خان کا بویا ہوا ہے ان کے مخالف الیکشن لڑنے والے تقریباً تما م لوگ غلام سرور خان، کرنل اجمل صابر راجہ، چوہدری غلام جیلانی، راجہ قمر الاسلام، چوہدری نعیم اعجاز یہ سب چوہدری نثارعلی خان کے ساتھی تھے
لیکن ان کے رویے کی وجہ سے الگ ہوئے یہاں تک کہ ٹکٹ دینے والے میاں نواز شریف نے بھی منہ موڑ لیا اسٹیبلشمنٹ نے بھی سر سے ہاتھ اٹھا لیا پرانے ووٹر بھی ساتھ چھوڑ چکے ہیں
اور اس دفعہ ہارنے کے بعد باقی ماندہ لوگوں نے غلط فیصلے کرنے کی وجہ آئندہ سے راہیں جدا کرنے کے اعلانات کئے ہوئے ہیں اب راجہ پرویز اشرف، اسد قیصر، اعظم سواتی یہاں تک کہ عمران خان بھی نثار علی خان کی تعریفیں کرتے رہیں
لوگ انھیں ماننے کیلئے تیار نہیں چوہدری صاحب آجکل سیاسی طور پربے روزگار ہونے کے باوجود عوامی محافل میں نہیں جاتے کیونکہ لوگ منہ نوچیں گے اب یہی طریقہ چلایا جا رہا ہے
کہ پرانے مشہور دوست بیانات دیں اور لوگوں کی ذہن سازی کی جائے لیکن اس سے نکلنا کچھ نہیں بقول ثاقب متیال کہ ہارے ہوئے گھوڑے سے میدان نہیں مارا جا سکتا
اس لئے مذکورہ لیڈران و باقی ممبران اسمبلی کو چاہیئے کہ اپنے حلقوں تک محدود رہیں اس حلقہ کے لوگ جسے مناسب سمجھیں گے اسمبلی میں بھیجیں گے اسمبلی کوئی ڈرائینگ روم نہیں جہاں زیب و زینت والی چیزیں سجائیں وہاں وہ لوگ جا سکتے ہیں جنہیں لوگ پسند کریں گے