وطن عزیز کی سیاسی تاریخ ہمیشہ سے ہی مسخ رہی ہے ہم ہرملک میں اس وقت کئی درجن کے حساب سے سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں اور کئی اور منظر عام پر آنے کو تیار ہیں
لیکن آج تک ایک بھی سیاسی جماعت قومی سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ نہ کرسکی عوامی مسائل کے حل کی دعویدار بڑے نام رکھنے والی سیاسی جماعتیں جو کسی دور میں اپنا وجود رکھتی تھی
عوام کش پالیسیوں کی بدولت صوبوں اور علاقوں تک محدود ہو چکی ہیں سینکڑوں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے باوجود آج بھی عوام کی اکثریت سیاست سے باہر ہے
جسے ”خاموش اکثریت“ کہا جاتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ روایتی سیاسی جماعتیں نظریاتی، محب الوطن اور عوام دوست افراد کو اپنے اندر سمونے سے قاصر رہی ہیں اسکی بڑی وجہ یہ ہے
کہ ساری سیاسی جماعتیں اقتدار کی سیاست کرتی ہیں جسکی وجہ سے ان کے سامنے عوامی مسائل اور اصول ضوابط کچھ معنی نہیں رکھتے اقتدار کے لیے یہ کسی حد تک جانے کے لیے تیار ہوتی ہیں
درجنوں مسلم لیگی سیاستدان نے مسلم لیگ کے نام پر کافی سیاسی جماعتیں کھڑی کرنے کی کوشش کی وہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے ایک آدھا بارکامیاب بھی ہوگے مگراب وہ گھر تک سمٹ چکے ہیں پاکستانی عوام کچھ لیڈران سے حد سے زیادہ محبت کرتے ہیں لیکن اسکے باوجود انکے
ذہنوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ سیاست شریف آدمی کا کام نہیں ہے مسلم لیگ ن سے اپنی راہیں جدا کرنیوالے شاہد خاقان عباسی نے بھی عوام پاکستان پارٹی کی بنیاد رکھ دی ہے
اس پارٹی کو عوام سے کیا ملے گا کیا یہ کامیابی حاصل کرے گی یا اسکا حال بھی جہانگیر ترین کی پارٹی جیسا ہوگا یہ کہنا قبل ازیں ہوگا لیکن گزشتہ روز مسلم لیگ ن سے دیرینہ تعلق رکھنے اور راولپنڈی میں یوتھ کو متحد کرنے والے چوہدری سرفراز افضل نے بھی ن لیگ سے راہیں جدا کرلی ہیں
سرفراز افضل نے گزشتہ انتخابات سے قبل پارٹی کے کچھ معاملات پر آواز بلند کی تھی لیکن انکی آواز سننے اسکا مداوا کرنے کے بجائے قیادت نے انہیں ہی ایک طرف کردیا اور انہیں ٹکٹ تک جاری نہ کیا گیا چوہدری سرفراز افضل سابق ممبر صوبائی اسمبلی کے علاوہ مشیروزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہے ہیں انکا ایک تگڑا سیاسی بیک گراونڈ ہے وہ سابق سینیٹرچوہدری تنویر خان کے بھتیجے اور پارلیمانی سیکرٹری اطلاعات و نشریات بیرسٹر دانیال چوہدری کے کزن ہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے انکا گھرانہ لیگی سیاست کا ہمیشہ سے محورمرکز رہا ہے
چوہدری سرفراز افضل مسلم لیگ ن یوتھ ونگ پنجاب کے سابق صدر بھی رہے ہیں اور مسلم لیگ ن کیلئے ان کی بہت سی خدمات بھی ہیں لیکن وہ کیا وجوہات تھی جسکی وجہ سے انہوں نے اپنی رہائشگاہ چکلالہ سکیم 3 میں ن لیگ کے لیے دروازے بند کرکے پاکستان عوام پارٹی کے کھول دیے
جہاں انہوں نے پاکستان عوام پارٹی کے کرتا دھرتا شاہد خاقان عباسی کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کی تقریب میں سابق گورنر کے KPKسردار مہتاب احمد خان عباسی بھی مدعو تھے چوہدری سرفراز افضل نے اپنی سیاسی دوریوں کا اظہار سوشل میڈیا پر اپنی روزانہ کی پوسٹوں میں کرنا شروع کیا اورپھر اپنی سیاسی لائن ہی الگ سے متعین کرلی الیکشن سے قبل ٹکٹ کے معاملہ اور اپنے حلقہ میں دراندازی پر قمر اسلام راجہ کیساتھ سیاسی لڑائی لڑی تھی اسکے بعد بھی وہ پارٹی پالیسی کیخلاف آواز بلند کرتے رہے تھے
اس وقت ن لیگ راولپنڈی میں دھڑوں میں بٹ چکی ہے لیکن حکومت ہونے کی وجہ سے اور وقتی مفادات کے پیش نظر سب نے چپ کی بکل میں اپنا منہ چھپا رکھا ہے جو وقت آنے پر اپنی سیاسی بکل سے منہ نکال سکتے ہیں فیصل قیوم ملک چوہدری کامران سمیت بہت سے رہنماء اس وقت تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو جیسے معاملے کو اپنائے ہوئے ہیں دوسری طرف شاہد خاقان عباسی نے پارٹی تو الگ بنا لی ہے
اور ساتھ میں ن لیگ کے بیانیے سمیت اسٹیبلشمنٹ پر تابڑ توڑ حملے جاری رکھی ہوئے ہیں کیا وہ عوام کے لیے کچھ کر پائینگے یا پھر وہی سیاسی تاریخ دہرائی جائیگی جو قبل آٹھ دہائیوں سے جاری ساری ہے خطہ پوٹھوہار میں شاہد خاقان عباسی اور راجہ پرویز اشرف دونوں کوتقریبا9نو ماہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے کا شرف حاصل ہے
راجہ پرویز اشرف نے گوجر خان کے لیے پریس کلب،ریلوے سٹیشن وکلا کمپلیکس گرلز کالج بوائز کالج،بجلی سمیت بیسیوں گاوں میں گیس کی
سہولیات کی فراہمی سمیت مندرہ چکوال ڈبل روڈ، سوہاوہ چکوال ڈبل روڈ تعمیر کروائی لیکن شاہد خاقان عباسی پاکستان مسلم لیگ نے اعتماد کرتے ہوئے پاکستان کا وزیراعظم بنایا مری کے لوگوں کا سر فخر سے بلند ہوا پر شاہد خاقان عباسی نے مری کو کیا دیا؟
یہ مری کے لوگ بہتر بتا سکتے ہیں سوال تو بنتا ہے کہ جو شخص وزارت عظمی کے دوران ایک تحصیل جواب ضلع بن چکا کی قسمت نہ بدل سکے اب نئی پارٹی بنا کر پورے ملک کی تقدیر بدلنے کے دعویدار ہیں
یہ وقت بتائے گا کہ سیاست کا دھارا اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے بہے گا یا عوام کی طاقت سے عوام کا نظام کامیاب ہوگا اللہ میرے ملک کا حامی ناصر ہو۔