راولپنڈی کے جنوب میں واقع علاقہ چونترہ ہمیشہ ہی ایک غیر مثبت پہچان کا حامل رہا ہے آپ ملک کے کسی بھی گوشے میں چلے جائیں اس علاقہ کے بارے مجموعی طور پرکوئی اچھی رائے نہیں پائی جاتی جرائم اور قتل و غارت گری کی وجہ سے مشہور اس علاقہ نے ملک وقوم کو ایسے باصلاحیت سپوت دیے جنہوں نے ملک وقوم کا سرپوری دنیا میں بلند کیا لیکن بدقسمتی سے علاقہ کی پہچان ان عظیم افراد کی بجائے سماج دشمن عناصر قاتل اور لٹیرے بنے ۔سماجی سائنس کے ایک طالبِ علم کے طور پر اس سوال کا جواب میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ پینسٹھ کی جنگ میں چوونڈہ کے محاز پر انسانی تاریخ میں ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی کی کمان کرنے والالفٹینٹ جنرل عبدالعلی ملک جس نے محاز کو دشمن کے ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا اسی جنگ میں جنرل علی کے بڑے بھائی اور چونترہ کے سپوت جن کی مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے کاٹنے کے لیے اکھنور کے پُل کی طرف پیش قدمی تیزی سے جاری تھی کہ اچانک ایوب خان نے اُن کو ہٹا کر یحیی خان کو کمان سونپ دی جس سے پاک فوج کی پیش قدمی رک گئی جس پر ایک بھارتی جنرل گوربخش سنگھ نے کہا تھا کہ چھتیس گھنٹوں تک پاکستانی پیش قدمی کا خود بخود رک جانا ہمارے لیے آسمانی مدد کے برابر تھا ۔چونترہ کا ایک اور سپوت جس کو دنیا انسپکٹرراجہ ثقلین شہیدکے نام سے جانتی ہے جو جرم کی تفتیش میں اور مجرموں کا کھوج لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا کراچی سے خیبر تک پیچیدہ ترین جرائم میں ملوث مجرموں کو ان کمین گاہوں سے ایسے نکال لاتا تھا کہ اُن واقعات پر ہالی وڈ کی فلموں کا گمان ہوتا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تاریخ میں اس کا نام شہدا کے ہراول دستے میں لکھا جائے گا سیاست کے میدان میں بھٹو کابینہ کے وزیرِ ریلوے ملک جعفر اور موجودہ عہد کے سب سے دبنگ متحرک اور پورے ملک میں سب سے زیادہ بار پاکستان کی قومی اسمبلی میں پہنچنے کا اعزاز بھی اسی علاقہ کے ایک فرزند چوہدری نثار علی خان کے ہی حصہ میںآیا اس سے بھی بڑھ کر کہ اٹھارہ کروڑ افراد کے نمائندہ ایوان میں اُن کا منتخب کردہ نمائیندہ وہ واحد رکن ہے جس پر اس کا بدترین مخالف بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتا ۔اس سب کے باوجودآخر کیا وجہ ہے کہ چونترہ کا حوالہ جرائم اور مجرم ہی ٹھہرے۔؟میرے خیال میں ہم ہمیشہ سے ایسے لوگوں کو اپنا ھیروبنا کر پیش کرتے رہے ہیں علم سے دُوری ہمیں اس مقام تک لے آئی کہ ہم جھوٹ اور سچ کی پہچان تک بھول گئے ہمارے ہاں اہلِ علم کی بجائے داستان گو قسم کے لوگ ہر سماجی تقریب کی جان سمجھے جاتے ہیں اس سب کی زمہ داری صرف اورصرف ہمارے ہاں کا وہ باشعور طبقہ ہے جومصلحت اندیشی کی بُکل مارے سچ کو سچ کہنے پر بھی تیار نہیں تھا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ یہ علاقہ ذاتی اور خاندانی جھگڑوں کے ساتھ ساتھ منظر جرائم جن میں ڈاکہ زنی فراڈاور منشیات کادھندہ کرنے والے شامل ہیں کا گڑھ بن گیاآئے دن ہونے والے ایسے جرائم جو اب روزمرہ کا حصہ بن چکے ہیں اُن سے علاقہ کاکون سا شخص ہے جو واقف نہیں کہا جاتا ہے کہ ہر چیز منڈی میں بکتی ہے چک بیلی خان جو کہ اس علاقہ کا معاشی سیاسی اوراب ثقافتی مرکز بھی بن چکا ہے جہاں اس کی معاشی سرگرمیاں علاقہ کے غریب عوام کے لیے ایک بڑی نعمت ہیں دوسری طرف وہ ان جرائم سے بھی سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ،جس کی آنچ وہاں کا باشعور طبقہ سب سے زیادہ اور شدت سے محسوس کر رہا ہے انہیں میں سے ایک نام مسعود جیلانی بھی ہے مسعود جیلانی کا تعلق ہماری نسل اور عہد کے ان چند لوگوں سے ہے جو سوچتے ہیں اورسوال اُٹھاتے ہیں یہی وہ بنیادی فرق ہے انسان کو حیوان سے الگ کرتا ہے مسعود جیلانی سے میرا تعلق زمانہ طالبِ علمی سے ہی ہے صحافت اس کا اوڑھنا بچھونا جب بھی ملاقات ہوتی ہے اپنے چاروں طرف پھیلی بدصورتی پر احتجاج کرتا دیکھائی دیتا ہے علاقہ میں منشیات جسم فروشی اُجرتی قاتلوں تک کے بڑھتے ہوئے رجحان سے پریشان اور مضطرب نظرآیاگزشتہ دنوں جب مجھے اس پر پُرتشدد واقع کی اطلاع ملی تومجھے اس پرصدمے اور دکھ کے باوجود حیرت بلکل نہیں ہوئی کیونکہ جیلانی جس راستے کا مسافر ہے اس میںیہ منظر نہ آئیں یہ ممکن ہی نہیں،داستان گو جنہوں نے مجرموں کو ہمارے ہیرو بنا رکھا تھا اُن میں اور صحافی میں فرق کا وقت آگیا ہے ،مسعود نے ایک دفعہ مجھے ایک دلچسب واقع سنایا تھا کہ سالوں پہلے جب میں نے صحافت شروع کی تو ایک طالبہ جس کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ صحافی ہمارے علاقہ میں بھی ہوتے ہیں بعد میں اس طالبہ نے مسعود کو خود بتایا کہ میں صحافی دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ کیسے ہوتے ہیں ایک وہ وقت اور ایک یہ وقت اُسی صحافی پر حملہ ہوا وہ بھی سکول کے قریب جس میں بچوں کے بھی زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں یہ ایک علامت ہے اُن سب داستان گو لوگوں کے لیے جو ہماری سماجی تقریبات کی جان ہیں جنہوں نے مجرموں کو ہمارے ہیرو بنایا ہوا ہے ،اب حسینیہ سکول اورچک بیلی اور چونترہ کے سب سکولوں کے طالبِ علموں سے بڑھ کر کون جانے گاکہ صحافی ہمارے علاقے میں بھی ہوتے ہیں اور یہ کہ وہ کیسے ہوتے ہیں۔
اس راہ میں جو سب پہ گُزرتی ہے سوگُزری
تنہا پسِ زنداں کبھی رسوا سرِ بازار{jcomments on}
127