جاوید چشتی‘پنڈی پوسٹ
جس طرح ندی، نالے، درخت، دریا، فیض دینے سے پہلے شناخت کاتقاضانہیں کرتے اسی طرح گاوں مک چودھریاں کے چودھری ظہوراحمد نے بھی علم کافیض بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب ہرایک کے لئے جاری کیا جو آج بھی جاری وساری ہے۔ علمی گھرانے سے متعلق تھے اسی لئے بی اے کیا، فوج میں گئے، صوبیدار بن کر ریٹائرڈ ہوئے اور 1951ء میں گورنمنٹ ہائی سکول کلرسیداں میں استادبن گئے۔تقریباً دس سال بعد گورنمنٹ ہائی سکول کہوٹہ تبادلہ ہوا۔ ایک ریٹائرڈ فوجی اور دوسرے جماعت اسلامی کے، سونے پہ سہاگا۔ دوآتشہ تھے محکمہ تعلیم میں خوب نام کمایا۔ بڑے نامی گرامی ان کے شاگردوں میں شامل رہے۔ عزیزاحمدہاشمی سابق چیئرمین بورڈ بھی ان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے ہوئے ہیں۔ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد 1980ء میں نیشنل ماڈل سکول کے نام سے قوم کے بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرناشروع کیا، جو اس وقت بھی سیدتصور حسین شاہ صاحب کے زیرانتظام فیض علم بانٹ رہاہے۔جماعت اسلامی کوان پر ناز تھا یا انھیں جماعت اسلامی پر، یہ تومعلوم نہیں لیکن ان کی زندگی کے قاعدے کلیئے، رکھ رکھاو اور سلیقے اور نظم وضبط دیکھ کر اکثر ہمارے جیسوں نے کبھی بھی جماعت اسلامی میں شامل ہونے کاسوچاتک نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جماعت آج بھی کلرسیداں میں چندنفوس قدسیہ تک محدود ہے۔ اللہ سب کوسلامت رکھے۔ چودھری ظہوراحمد اپنے مسلک پر سختی سے کاربندہونے کے باوجود کسی کی دل آزاری کاسوچ بھی نہیں سکتے تھے۔چودھری ظہواحمد صاحب کوایک بہترین ٹیم میسرآئی جس نے نیشنل ماڈل سکول کوعلاقہ کامعتبرادارہ بنادیا۔ جماعت اسلامی کے بڑے ناموں میں جناب محمد صادق بھٹی اور جناب چودھری محمداسلم ان کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ سیدتصور حسین شاہ صاحب ان کے دست راست تھے۔چودھری ظہوراحمد (مرحوم) کاوہ زمانہ تھا جب لوگ عادتیں بدل لیتے تھے مگردوست نہیں بدلتے تھے۔ اب الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ لوگ اپنی بد خصلت بدلنے کے بجائے برسوں کے یارانوں کوپا?ں تلے روند رہے ہیں۔ 27 مارچ 1996ء کو سکول سے اپنی ناساز طبیعت کے باعث گھرجانے کی اجازت طلب کی توزبان پر فارسی کے چنداشعار تھے، جن کاترجمہ یہ تھا: ”بڑے بڑے نام وراس دنیاسے اس طرح اٹھ گئے کہ ان کاکوئی نام ونشان نہیں۔ اے انسان! ایک وقت آئے گا کہ اعلان ہوگا کہ فلاں چل بسا۔“ اور چودھری صاحب واقعی اس دن چل بسے اور یہ اعلان گردونواح میں گونجنے لگا کہ علمی دنیا کی نامی گرامی شخصیت چودھری ظہوراحمد اپنے اللہ سے واصل ہوگئے ہیں۔ان کے خاندان کے لوگ اب بھی علم سے وابستہ ہیں۔ مک چودھریاں کا ذکر جب بھی کیاجائے، چودھری ظہوراحمد اور ان کے خاندان کے ذکرکے بغیر مکمل ہوہی نہیں سکتا۔انسان کودولوگ ہی فیض پہنچاتے ہیں، ایک شفادینے والا طبیب اور دوسرا علم دینے والا استاد۔ اسی لئے زیادہ ترانبیاء طبیب ہوگزرے ہیں یا استاد۔ چودھری ظہور احمد مرحوم بھی ایک فیض دینے والے استاد تھے۔ اللہ ان کی قبرپر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین
129