جواد اصغر شاد
پیر سید صابر حسین شاہ گیلانی کی دین اسلام اور معاشرے کیلئے خدمات سے کسی طور انکارممکن نہیں، ان کی ساری زندگی دین اسلام کی اشاعت میں گزری، انھوں نے معاشرے میں رواداری اور محبت کے وہ گلاب تقسیم کئے جن کی مہک آج تک ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ زیر نظر تحریر میں ان کی خدمات اور حالات زندگی پر مختصر نگاہ ڈالتے ہیں۔ پیر سید صابر حسین شاہ گیلانی 15مئی 1943ء کوسندھوں سیداں شریف میں پیرسید ولایت حسین شاہ گیلانی کے ہاں پیدا ہوئے۔ انھوں نے نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا مکرم پیر سید عالم شاہ گیلانی ؒ کے علاقہ جنڈ گجر شریف گوجرخان میں حاصل کی آپ کی روحانی تربیت آپ کے والد گرامی ولی کامل پیرسید ولایت حسین شاہ گیلانی”جو ایک با کرامت شخصیت تھے نے فرمائی میٹرک تک تعلیم اپنے علاقہ کے ہائی سکول سے حاصل کی منشی فاضل فارسی اور باقی علوم اسلامیہ اپنے برادر اکبر قبلہ عالم مفکر اسلام ڈاکٹر پیر سید عبدالقادر جیلانی”سے حاصل کی ایم اے اسلامیات واردو پنجاب یونیورسٹی سے پاس کئے سلسلہ بیعت میں بھی اپنے بردار اکبر حضرت مفکر اسلام سے آپ کی ارادت تھی اور انھیں سے آپ نے روحانی منازل طے کیں۔ برطانیہ میں علوم اسلامیہ کی خدمات آپؒ منسٹری آف لاء اسلام آباد میں اعلی عہدہ پر فائز رہے لیکن ریٹائر منٹ سے پہلے ہی اپنے برادر اکبر کے حکم سے لندن دارالعلوم قادر یہ جیلانیہ میں تدریسی اورتعلیمی خدمات کے لیے تشریف لے گئے وہاں فارسی ادب کے سلسلہ میں منشی فاضل،ادیب اردواور اسلامیات کی کلاسز شروع کیں تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ اسلامی ثقافت کوفروغ دینے کے لیے برطانیہ میں آپ کی بے شمار خدمات ہیں ان میں سب سے بڑا کام تعلیم قرآن کریم ہے۔ جس دن سے برطانیہ تشریف لے گئے اس دن سے اپنی وفات تک دینی خدمات جاری رکھیں یہاں تک کہ اپنی تدریسی سلسلہ میں ہفتہ اور اتوار کو بھی کبھی چھٹی نہیں کی اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آپ کے شاگرد ہر سال رمضان المبارک میں دارالعلوم اور لندن کی مختلف مساجد میں نمازتراویح کی امامت کرتے نظر آتے ہیں۔آپ کا معمول تھا کہ آپ اپنے کسی بھی طالب علم کو حفظ قرآن کریم کی دستار یا سند محض یادکرنے پر نہیں دیتے تھے بلکہ یہ شرط رکھی کہ رمضان المبارک میں تراویح میں مکمل قرآن کریم سنانے کے بعد سند جاری کی جائے گی۔ اس طرح گزشتہ دود ہائیوں سے دارالعلوم لندن میں ہرسال ایک نیا طالب علم حافظ قرآن تراویح کی امامت کیا کرتا تھا اور سال2021 میں بھی آپ حفاظ تیار کر کے دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ نے برطانیہ کی سرزمین پر اردو زبان کو بھی فروغ دیاجو عرصہ 15 سال سے مرکزی حیثیت کا حامل کر دار رہا ہے قبلہ عالم دار العلوم میں اردو ادب کی کلاسز پڑھاتے رہے۔حضرت مفکر اسلام کے مشن میں کردارآپ کے برادر اکبر حضرت مفکر اسلام ڈاکٹر پیرسید عبدالقادر جیلانی ”اس وقت عالم اسلام کی ایک عظیم علمی وروحانی شخصیت ہیں ان کے مشن میں حضرت پیر صابر شاہ جی”کا مفکر اسلام کے خطبات جنکی تعداد 40 کے قریب ہے وہ آپ کی سرپرستی میں چھپ چکے ہیں ان کے علاوہ فضائل اہل بیت اور دیگر اہم موضوعات پرلکھی گئی کتب ان پر کام کیا بالخصوص قبلہ مفتی غلام رسول ی نقشبندی کی کتب کو پاکستان میں طباعت کرایا، پاکستان اور دیگر باقی اسلامی ممالک میں قائم بیشمار مساجد، خانقاہوں، مدارس اسلامیہ کی سرپرستی فرماتے رہے خاص طور پر اسلام آبادشہر کی مساجد اور اپنے علاقہ سے مشفق اور ایک پروقار شخصیت تھے علماء ومشائخ کی خدمت اور مساجد ومدارس خصوصاپوٹھوہار کی مساجد و مدارس اسلامیہ کی تعمیرات میں آپ کا ایک اہم کردار رہا ہے۔مفسر قرآن حضرت پیر سید ریاض حسین شاہ صاحب، پیر صابر شاہ گیلانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کئے ہوئے
سید صابر حسین شاہ گیلانی دودمان گیلانی کے چشم و چراغ ہیں اور سید عبدالقادر شاہ گیلانی کے برادر اصغر ہونے کی تاریخ رکھتے ہیں۔مفکر اسلام کی زندگی کاسمندر جوش،تموج اور ہنگاموں کے خروش میں سحاب عروج کی تشکیل کرنے میں مگن رہا۔ شجاعت اور بہادری انہیں ورثے میں ملی۔ بڑے شاہ جی نے ہنگاموں سے کبھی خوف محسوس نہیں کیا اور چھوٹے شاہ جی بڑے شاہ جی کے مسائل کو عزم و ہمت کے ساتھ سنبھالا دیتے رہے۔ سید صابر حسین شاہ گیلانی مفکر اسلام کے بھائی بھی تھے اور رفیق بھی۔ مفکر اسلام اور سید صابر حسین شاہ ہمیشہ اصاغرنوازی کرتے رہے۔ مناظرے، مجادلے اور مباحثے طوفاں کھڑے کرتے رہے لیکن ان سادات نے اور لوگوں کو بھی ہزیمت اور استقامت کا درس دیا اور دینی، معاشرتی اورفکری تبدیلیوں کی اہمیت جان کر جمالیاتی منزل کی تلاش میں رہے۔ پیرانہ سالی میں بھی ان کے روحانی وجود پر کبھی تھکاوٹ طاری نہ ہوئی۔ سید صابر حسین شاہ گیلانی حسب ضرورت لکھاری بھی تھے۔اس لئے کہ ان کے باباعلی صاحب قلم بھی تھے اور صاحب علم بھی تھے اور صاحب علم و علم بھی تھے۔ نعت سننے کا ایک خاص ذوق تھا اور نعت سماعی میں جب ڈوب جاتے تو دادنوازی میں بھی جذب رکھتے تھے۔ایک بڑی تاریخ یہ تھی کہ آپ نے دشمنان اہل بیت کی کبھی قصیدہ نوازی نہیں سنی۔ سید صابر حسین شاہ گیلانی کی ساری زندگی درعلم اور باب محبت پر جاروب کشی میں گزری۔ آپ کی نثر میں غیر مطبوعہ تحریرات موجود ہیں آپ ایک عظیم شاعر بھی تھے آپ نے اردو ادب اور اپنی مادری زبان پوثھوہاری میں اشعار لکھے آپ کی شاعری کااسلوب قرآن وسنت کی تعلیمات وتشریح تھا جس کی ایک شہرہ آفاق مثال مندرجہ ذیل شعر ہے۔ حضرت پیر صاحب نے مقصد حیات کو ایک شعر میں یوں سمودیا
زندگی کا مقصد ہے بندگی خداکی
بندگی کا مطلب ہے غلامی مصطفی کی