تھانہ روات کی حدود میں ایسا اندوہناک واقعہ پیش آیا جس نے ہر زی شعور کوآنکھوں کو نم کردیا ساڑھے چار سال کا گول مٹول خوبصورت ارشمان اختر ولد محمد اختر جو کھنہ روڈ ترلائی اسلام آباد کے رہائشی ہیں 23نومبر2024کو موہڑ ہ گاڑ،ڈاک خانہ خاص جتھہ ہتھیال چک بیلی خان روڈ سے شادی کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے آیا تھا .
کسی کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ جہاں ایک طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں وہاں دوسری طرف کسی کے لیے موت کا سامان ہے قدرت کےرنگ بھی نرالے ہیں اسی شادی کی تقریب میں ننھا ارشمان غائب ہوگیا گھر والوں کی بروقت اطلاع کے باوجود پولیس کی روائیتی بے حسی کھل کر سامنے آئی اور تھانہ روات پولیس نے بچے کو تلاش کرنے کے بجائے ڈھنگ ٹپاو پالیسی پر زور رکھا بچہ نہ مل سکا۔
والدین صدمہ سے نڈھال ہوگے بچے کا والدمحمد اختر کینسر کا مریض تھا اس کی تکلیف میں بچے کی گمشدگی نے مزید اضافہ کردیا اور بچے کی گمشدگی کاصدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے27دسمبرکودنیا سے چل بسا۔پولیس کی روائیتی بے حسی کہ بچے کی والدہ پر مزکورہ کیس کے تفتیشی سب انسپکٹر وسیم سرور جسے چاہیے تھا کہ انکی داد رسی کرتا الٹایہ الزام لگا تا رہا کہ تم جھوٹ بول رہی ہو بچہ شادی کی تقریب میں آیا ہی نہیں تھابچہ تم لوگوں نے خود غائب کیا ہے۔
بچے کی گمشدگی کا غم اور خاوند کی موت کا غم لینے والی بیوی اپنا رشتہ ثابت کرنے کے لیے کبھی فارم ”ب“لیکر آتی تو کبھی کیا پھر اسی بھاگ دوڑ میں 18جنوری کو بچے کی لاش موہڑہ گاڑ کے ہی جنگل میں واقعہ ایک تالاب سے ملی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بچہ 10سے 12دن تک پانی میں رہا یعنی ڈیڑھ ماہ کے لگ بھگ بچہ اغوا کاروں کے پاس زندہ رہا اور اسی علاقہ میں تھا۔
لیکن اندھا قانون جو ازل سے ہی اندھا ہے نے کوئی کوشش نہ کی بچے کو تلاش کرنے کی اور ظالموں نےبچے کا گلا دبا کر مارا دیاعینی شاہدین کے مطابق بچے کی ایک آنکھ نکالی گئی آدھا چہرہ بھی جلا ہوا تھا ایک طرف تو والدین کے لیے یہ لمحہ تو عزاب بنا ہوا تھا تو دوسری طرف موہڑہ گاڑ کے رہائشیوں کی زندگی روات پولیس نے اجیرن کرکے رکھ دی
تھانہ روات پولیس نے ارشمان کے قاتلوں کو پتہ نہیں گرفتار کرنا ہے یا نہیں لیکن گاڑ کے رہائشیوں سے روزانہ کی بنیاد پر گرفتاریوں کا سلسلہ جاری کررکھا ہے۔
روزانہ ناکہ لگایا جاتا ہے اور چند افراد کو پکڑ کر چھترول کی جاتی ہے بالخصوص جوان بچوں کو وہ مار کھا کے جس کا بھی نام لیتے ہیں اسکی سختی آجاتی ہے SHO روات کے نادر حکم شاہی کے مطابق CPOراولپنڈی نے حکم دے رکھا کہ پورے گاوں کے فنگر پرنٹس لیں پورا گاوں اسکے لیے بھی تیار ہے SPصدر کے مطابق جس دن واقعہ ہوا اس دن اس علاقہ میں سروس نہیں تھی جسکی وجہ سے فرانزک میں ایشو ہے

مضمون نگار کرائم رپورٹر ہیں جرائم ودیگر معاشرتی مسائل کے موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں
لیکن ان ساری کہانیوں کے باوجود علاقہ کے عوام خوف ہراس کا شکار ہیں ایک طرف بچے کا دکھ دوسری طرف بے گناہ لوگوں کی گرفتاریاں پورا گاوں فنگر پرنٹ اور ڈی این اے ٹیسٹ اور رضاکارانہ تفتیش کے اپنے اپکو پیش کرنے کے لیے تیار لیکن پولیس پر تششدد اور روائیتی طرز پر تفتیش میں مصروف گاوں کے جن گھرانوں کا جس شادی میں شرکت کے لیے مقتول ننھا پھول ارشمان موڑہ گاڑ گیا۔
دور دور تک تعلق نہی کو بھی حراساں کیا جا رہا ھےعلاقے کے لوگوں میں خوف حراس پایا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا اس جدید دور میں بھی پنڈی پولیس کوئی جینوئن کارروائی کریگی یا بے گناہ لوگوں کو لتر پولے سے کال چلایا جاتا رہیگا پنجاب کی ماں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کب نوٹس لیں گی؟؟؟
٭قاتل کب گرفتار ہونگے؟؟
٭معصوم بچے اور اسکی والدہ کو انصاف کون دے گا؟؟یہ بڑے سوال ہیں جنکا جواب وقت دیگا لیکن موضع گاڑ کے بے گناہ رہائشیوں کو پولیس کی بے رحم چھترول کون روکے گا