پرائیویٹ ہاوسنگ سوسائٹی یا جرائم کی نرسری ؟

آصف شاہ
راولپنڈی کے نواحی علاقہ چونترہ میں قائم بلیو ورلڈ سٹی ہاؤسنگ اسکیم گزشتہ چند برسوں سے نہ صرف خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے بلکہ اب اسے اگر جرائم کی نرسری قرار دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا اسکی ابتدا عام سوسائٹیوں کی طرح تھی جس میں دعوی کیا گیا کہ ہم اسے ایک جدید اور بین الاقوامی معیار کا رہائشی منصوبہ بنا رہے ہیں جس کےلئے بڑے بڑے بل بورڈ اور اشتہارات میں بڑے بڑے وعدے اور خواب دکھائے گئے ایسے لگ رہا ہے کہ زمین پرمصنوعی جنت تیار کی جارہی ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اس منصوبے کے ساتھ ساتھ جب دھول چھٹی تو وہی معاملہ سامنے آگیا زمینوں پر قبضے، جعلسازی، فراڈجیسے سنگین الزامات سامنے آ نے لگے ابتدائی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ منصوبے میں ہزاروں جعلی پلاٹ فائلیں فروخت کی گئیں،

جن کے ذریعے معصوم شہریوں سے اربوں روپے ہتھیائے گئے پھر یہ ڈرامہ کیا گیا کہ فاعلیں واپس کریں تو جس نے دس لاکھ جمع کروایاتھا اسے کٹ کٹا کر دو لاکھ ہی ملنے کا اعلان ہوا بہت سے متاثرین راقم سے ملے تو میں نے خود نعیم اعجاز سے رابطہ کرکے ایشو ڈسکس کیاتو انہوں نے کہا کہ سب میرے بس میں نہیں کیونکہ معاملات لاہور سے ہینڈل ہوتے ہیں اور ایک بڑے ادارے کے بڑے سینگوں والے مالی معاملات دیکھتے ہیں اس لیے ساڈے ولوں نہ سمجھو اور خیر سے متاثرین کا کوئی بھی اور کہیں بھی شنوائی ہوتی نہ ہونا تھی نہ کسی ادارے نے بلیو ورلڈ سٹی کی انتظامیہ کو ہاتھ ڈالا متعدد شہریوں نے پولیس سمیت قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو درخواستیں دی لیکن قانون تو اندھا ہوتا ہے اس لیے اسے کچھ نظر نہ آیا اور نہ آنا تھا آج بھی بہت سے یسے متاثرین ہیں جنہوں نے زندگی کی جمع پونجی لگا دی،

مگر بعد میں پتہ چلا کہ زمین کسی اور کی ملکیت ہے اور اس پر قبضہ کرکے نقشہ پر انکا قبضہ ہے دوسری طرف PHATAمیں جمع فاعل کے مطابق مزکورہ سوسائٹی کے پاس 4ہزار کنال زمین ہے جبکہ انکا دعوی ہے کہ انکے پاس ڈھائی لاکھ کنال زمین موجود ہے ذرائع کے مطابق،منصوبے کے پیچھے موجودسیاسی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات میں نعیم اعجاز کا نام بھی شامل ہے، جو ایک منتخب ایم پی اے ہوئے ہیں ان پر قتل قتل قبضہ سمیت سینکڑوں اقسام کی ایف آئی آرز درج ہیں اور صاحب ہزاروں کنال اراضی پر قبضے کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں متاثرین کا کہنا ہے کہ سیاسی اثرورسوخ اور مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت کی آنکھوں کا تارا ہونے کے باعث نہ صرف کارروائیاں مؤخر کی جا رہی ہیں بلکہ شکایات کرنے والوں کو دھمکیاں اور دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اب تو ایک حکومتی بھاگ دوڑ سنبھالنے والے صاحب کی انویسٹمنٹ کی متضاد خبریں بھی زیر گردش ہیں


ایک سینئر صحافی ملک زبیر کے مطابق بلیو ورلڈ سٹی سے منسلک مختلف کمپنیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرمایہ کاری کا بھی دعوی سامنے آیا ہے متعدد فیک بینک اکاؤنٹس اور جعلی کمپنیوں کے ذریعے رقوم کو بیرونِ ملک منتقل کیا گیا۔جبکہ سینئر کرائم رپورٹر اسرار راجپوت کی چونکا دینے والی تحقیق کے مطابق اس سوسائٹی میں کئی لوگوں کو مار کر انہیں اسی زمین میں گاڑ دیا گیا ہے بلیو ورلڈ سٹی کااہم فیاض عرف بابو لوہارہے جس نے اس سوسائٹی کو جرائم کا گڑھ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے بابو لوہار چکری چونترہ میں قائم اس غیر قانونی بلیو ورلڈ سٹی مالکان کو پنجاب بھر سے بے روز گار، مجبور، غریب نوجوانوں کی کھیپ لاکر بغرض نوکری” سکیورٹی گارڈ“مہیا کرتا تھا جنہیں بعد ازاں اسلحہ تھماکر زمینوں پر ناجائز قبضوں و پولیس پر فائرنگ لیے استعمال کیا جاتارہا ہے اور جس نے اس کام سے انکاری کی اسکا مقدر موت ٹھہری اور اسے مار کر قبر اسی جگہ بنا دی گئی بابو لوہار چکری چونترہ میں راولپنڈی پولیس کی وردی پہن کر نہ صرف مخالفین کے ڈیروں پر ریڈ کرتا رھا بلکہ کسی کو بھی موت کے گھاٹ اتارنا اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا دوسری طرف سینئر صحافی صالح مغل اور فہد الطاف راجہ بابر اورنگزیب چوہدری بھی کچھ نہ کچھ نیاءہی لیکر آتے ہیں ان دوستوں کی جرات کو سلام


لیکن ہمارے اندھے قانون کی آنکھ نہ کھل سکی ایس ایچ او سے لیکر ہر شعبہ میں من پسند افسران کی تعناتیاں اراضی ریکارڈ سینٹر ہلکاروں کی ملی بھگت سے لیکر حلقہ پٹواری تک ساتھ رکھنے والے ایم پی اے نعیم اعجاز اس بات کے دعویدار ہیں کہ انکے اوپر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں بلیو ورلڈ سٹی کے خلاف متعدد مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں، جن میں زمین پر قبضہ، جعلی دستاویزات فائرنگ قتل غارت سمیت دھوکہ دہی جیسے الزامات شامل ہیں لیکن بھلا ہو ہماری پولیس کا جو ایک پتنگ فروش سے کئی ہزار پتنگ ایک چرس کا سیگریٹ رکھنے والے سے کئی کلو چرس تو نکال سکتی ہے لیکن بلیو ورلڈ سٹی میں چھپے ملزمان اور مفروروں کو نہ پکڑ سکی اور اس ظلم ستم کے اصل منصوبہ ساز ان کے سیاسی قانونی اورحرام کاریوں پر پردہ ڈالنے والے سرپرست تاحال قانون کی گرفت سے باہر ہیں‘قینا اس کا زمہ انکے سر بھی ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے کرسیوں پر براجمان ہیں لیکن اپنے کام سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں بلیو ورلڈ سٹی محض ایک ہاؤسنگ اسکیم نہیں بلکہ ایک منظم نیٹ ورک بن چکا ہے، جہاں سیاست، سرمایہ اور سازش ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جب منتخب نمائندے خود غیر قانونی قبضوں میں ملوث پائے جائیں تو عام شہری کہاں انصاف تلاش کرے؟بلیو ورلڈ سٹی کی چمک دمک کے پیچھے چھپی یہ داستان اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا نظام کس قدر غیر شفاف اور بااثر طبقے کے کنٹرول میں ہے۔ اگر ریاستی ادارے اب بھی خاموش رہے تو یہ منصوبہ آنے والے وقت میں ملک کے سب سے بڑے پراپرٹی اسکینڈل کے طور پر سامنے آئیگا اور اس وقت اداروں کی آنکھیں کھلیں گی ایک بات یاد رکھیں وقت چاہے جتنا بھی لگے، مگر ظلم کا سورج ہمیشہ غروب ہوتا ہے طاقت، دولت اور اسکا نشہ اثرورسوخ وقتی سہارا ضرور دیتے ہیں، لیکن اللہ کی پکڑ سے کوئی بچ نہیں سکتاجن ہاتھوں نے معصوموں کی زمینیں چھینی، جن قلموں نے جعلی فائلوں پر دستخط کیے جن زبانوں نے سچ دبانے کے لیے دھمکیاں دیں ان سب کا حساب ایک دن ضرور ہوگاریاست کی عدالت خاموش رہ بھی جائے تو کوئی بات نہیں مگر اللہ کی عدالت خاموشی نہیں بلیو ورلڈ سٹی ہو یا کوئی اورچمک دمک وقت کے ساتھ ماند پڑ جائے گی لیکن جنہوں نے اس اندھیر نگری کو جنم دیا، وہ یاد رکھیں جب انصاف کا وقت آتا ہے تو تخت و تاج نہیں صرف کردار باقی رہتا ہے۔