پروفیسر محمد حسین
مملکت پاکستان چودہ اگست 1947کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی یہ اسلامی ملک برصغیر پاک وہند کی تقسیم کے نتیجے میں وجودمیں آیا شروع میں پاکستان دو حصوں پر مشتمل ہونے کی بناء پر ایک حصہ مغربی پاکستان اور دوسرامشرقی پاکستان کہلاتا تھا لیکن بعض بین الاقوامی سازشوں اور ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے مشرقی پاکستان کا صوبہ پاکستان سے الگ ہوگیا پاکستان کی جغرافیائی اہمیت 1950کی دہائی میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل رہی کیونکہ امریکہ ان سالوں میں روس کے خلاف ایک ائیربیس یو- 2 تیار کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ روس کی فضائی نگرانی کرسکے جب امریکہ نے آئرن ہاورکی پاکستان میں کم دلچسپی ظاہر کی تو اس کے فوراََبعد چین نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات زیادہ استوار کر لئے بالخصوص چین کی بھارتی پر برتری سے چین نے پاکستان کے ساتھ دفائی اور اخلاقی بنیادوں پر تعلقات استوار کئے جس کا مقصد خطے میں بھارت کو روکنا تھا 1971کی جنگ نے بنگلہ دیش کی تشکیل کا پیش خمیہ ثابت ہوئی پاکستانی احکام کو اپنی جغرافیائی حیثیت کا احساس ہوا 1979میں روس نے افغانستان میں جارحیت کی جس نے پاکستان کے صدرضیاء الحق کا اس بات کا موقع دیا کہ روس کے خلاف امریکہ کی حمایت کر کے اپنی زمین کو برباد کرے روس کے افغانستان سے اخراج کے بعد افغانستان میں موجود طالبان گروپوں میں جنگ ہوگئی اور پاکستان نے طالبان کی مدد کر کے ان کو حکومت دلوائی 9/11کے حادثہ نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پاکستان بری طرح سے امریکی مالی امداد پر انحصار کرنے لگا پاکستان بحیر عرب کے ساتھ بارہ سوکلومیٹر طویل ساحلی علاقہ پر مشتمل ہے کراچی میں موجود بندرگاہ صدیوں سے علاقہ میں بہت اہمیت کا حامل کردار ادا کرتی رہی ہے گوادر سے بندرگاہ کراچی کے مغرب میں خلیج کے دہانے پرہرمزکے دوسری طرف واقع ہے مشرق وسطے اور خلیجی ملک میں تجارت کا ایک اہم راستہ سمجھی جاتی ہے گودر کی نئی بندرگاہ قاسم پورٹ کے لئے بہت اہمیت کا کردار ادا کرے گی یہ نئی بندرگاہ بیس ممالک میں تجارت کے لئے بہت دلکشی کی حامل ہوگی امریکہ اس طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے کیونکہ اس کثیرالاطراف تجارت سے وہ بھی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے دنیا کی تمام بڑی طاقتیں پاکستان کی بڑی بندرگاہ ہوئی پورٹ قاسم اور گودر پورٹ کی اہمیت کے پیش نظر چاہتی ہیں کہ کراچی اور بلوچستان کو پاکستان سے علیٰحدہ کر کے آزاد ریاستیں بنا دیں تاکہ وہ تجارت کی ان شاہرا ہوں پر باآسانی قبضہ کر سکیں براعظم ایشیاء کی طبعی نقشے پر نظر ڈالی جائے تو برصغیر پاک و ہند‘جواب بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہوچکا ہے اس کے جنوبی حصے میں ایک جزیرہ نماکی صورت میں نظر آتا ہے پاکستان کے شمال مغرب میں کوہ ہمالیہ کا سلسلہ ہے اس طرف پاکستان کی سرحدیں عومی جمہوریہ چین سے ملتی ہیں مغرب میں افغانستان واقع ہے جس کے ساتھ روس کی سرحدیں ملتی ہیں پاکستان کے جنوب مغرب میں ملک ایران ہے اور مشرق میں بھارت کا ملک ہے جنوب میں بحرہند اور بحیرہ عرب واقع ہیں یہ دونوں سمندر بین الاقوامی اہمیت کی تجارت گزرگاہ ہیں پاکستان ایک ایسے علاقے میں واقع ہے جس کی سیاسی اقتصادی اور فوجی اہمیت مسلم ہے پاکستان کے ہمسایہ مملک میں عوامی جمہوریہ چین اور روس جیسی دو بڑی طاقتیں شامل ہیں جن کی وجہ سے عالمی سیاست میں اس علاقے کی اہمیت بڑھ گئی ہے اکثر مغربی مما لک کی صنعتی ترقی کا دارومدار بڑی حد تک خلیجی ممالک کے تیل پر ہے جو بحیرہ عرب سے گزر کر ان ممالک تک پہنچتا ہے کراچی پاکستان ہی کی نہیں بلکہ سارے بحیرہ عرب کی ایک اہم بندرگاہ ہے اس لئے پاکستان کی خارجہ پالیسی آمدورفت پر اثر انداز ہوسکتی ہے پاکستان کو اپنی قدیم اور روشن تاریخ کے حوالے سے دنیا کی قدیم ترین تہذیب وثقافت کا گوارہ کہا جاتا ہے ماہرین آثار قدیمہ اور سماجیات نے پاکستان کے مختلف حصوں میں کوئی گیارہ ہزار سال پرا نے بڑے اہم اور تہذیب و ثقافت کی برملا نشاندہی کرنے والے متعدد ثبوت حاصل کئے ہیں پاکستان کی آبپاشی اور زرخیزی کا دارومدار دریائے سندھ اور اس کے چار اور معاون دریائے جہلم‘چناب ‘راوی اور ستلج پر ہے پھر چھوٹے دریاؤں اور سدارواں دواں نہروں اور ندی نالوں نے اس ملک کو زرخیزی اورزرعی پیداوار کے حوالے سے مثالی بنارکھا ہے پاکستان اپنے ان دریاؤں کی بدولت اپنی زرعی پیداوار کے لئے پورے ایشیاء میں لاثانی ہے پاکستان کی گندم کپاس اور چاول بیرونی دنیا میں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ہمارے اس ملک پاکستان کی درخشاں تاریخ ہے ان میں تاریخی عناصر ‘سیاسی عوامل‘مذہبی ودینی وابستگیاں ‘ ثقافتی وتہذیبی عوامل‘روحانی اور نفسیاتی احتیاجات کو بڑی اہمیت حاصل ہے انہی عوامل نے برصغیرپاک وہند کے مسلمانوں کو ایک جداگانہ دو قومی نظریہ دیا ہے پاکستان کی صدیوں پرپھیلی ہوئی تاریخ کے بعد عہد جدید میں محمد بن قاسم آٹھویں صدی عیسوی میں اس برصغیر پاک و ہند میں پہنچا پھر قطب الدین ایبک نے اس برصغیر میں مسلمانوں کی باضابطہ حکومت قائم کی اس نے خانداں غلاماں کی بنیاد رکھی اس کے بعد خلیجی حکمران آکے انہوں نے یہاں پر قریباََ ایک سوسال تک حکومت کی پھرچودھویں اور پندرھویں صدی عیسوی میں اس خطہ ار ض پر سلاطین دہلی نے عروج حا صل کیا جب سلاطین دہلی ز والآاشنا ہوے تو یہاں ہندوؤں نے کچھ قوت حاصل کرنا شروع کر دی تھی اس دور میں چنگیز خا ن نے بھی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا پھر یہاں پر ایک چغتای ترک بابر مغرب کی جانب سے پوری آب و تاب سے وارد ہوا بابر نے 1856میں آخری سلطان دہلی ابرل سم لودھی کوپانی پت کے میدان میں شکست دے کر اپنا تسلط جمایا بابر کی کامیابی کے بعد اس برصغیرمیں مغلیہ حکومت کا آغاز ہوا پھر ہمایوں‘اکبر‘جہانگیر‘شاہجہاں اور اورنگزیب علمگیر نے اپنا اپنا شاہانہ عہد گزارا مغلیہ دور کے عہد حکومت کو برصغیر میں خوشحالی‘امن وسکون اور شان و شوکت کا درخشاں دور بھی کہا جاتا ہے اس مغلیہ عہد میں پہلی بار بر صغیر پاک و ہند کہ جس میں مسلمان اقلیت میں تھے اور ہندووں کی اکثریت تھی اسلامی تہذیب وثقافت چھا گئی تھی شاہی درباروں کی زبان فارسی تھی بعد میں اسی فارسی زبان کو ہندوؤں کو زیادہ قریب کرنے کی خاطر اردو زبان پیدا ہوئی اسلامی فن تعمیرات اور دیگر فنون میں اسلامی رنگ غالب ہوا ۔اسی طرح نظم و نسق میں بھی اسلامی تہذیب وثقافت ہی نے فروغ پایا گویا خالصتاََ بوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ قریباََ ایک ہزار سالہ اسلامی دور کی بدولت اس بھارت میں بھی ایک خاص اسلامی تہذیب وثقافت اور اسلامی فنون لطیفہ ابھر چکے تھے
5,460