columns 128

پاکستان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے شکنجہ میں کیسے آیا

انیس سو اسی کی دہائی میں آفتاب احمد خان سیکرٹری خزانہ کے عہدے پر فائز تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان پر مغربی ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے نوازشات کی بارش ہو رہی تھی۔ 1979میں پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے امداد کی درخواست کی تھی جو مسترد کر دی گئی۔

1976اور 1979 میں پاکستان پر اقتصادی امداد کی فراہمی کے لئے پابندی عائد کی گئی۔ افغان مجاہدین کی امداد کے بعد یہ پابندیاں ہٹا لی گئیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی جانب سے از خود ڈیڑھ ارب ڈالر امداد کی منظوری دی گئی۔ امریکہ نے ساڑھے تین ارب ڈالر کی اقتصادی امداد اور قرضوں کی منظوری دی

۔ ڈاکٹر حسین ملک قائداعظم یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کے انچارج تھے‘ وہ بیرونی امداد کے سخت مخالف تھے۔ آفتاب احمد خان سے ملاقاتوں میں ڈاکٹر ملک عموماً ایک ہی سوال کرتے تھے۔ کیا قرضوں کے معاہدوں پر دستخط کرتے ہوئے آپ سوچتے ہیں کہ یہ قرضے واپس کیسے کئے جائیں گے؟ آفتاب احمد اپنی قہقہوں سے بھرپور آواز میں جواب دے کر آگے بڑھ جاتے۔

افغانستان سے روسی فوجیوں کا انخلاء شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی امریکہ اور اس کے حواریوں نے نظریں پھیر لیں۔ اگست 1990میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بہانہ بنا کر ایک مرتبہ پھر اقتصادی امداد بند کر دی گئی۔ بارہ سال کے عرصے میں یہ تیسری پابندی تھی۔ گزشتہ 25سالوں میں ہر حکومت کا اولین فرض بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے امداد کی درخواست رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ گزشتہ پچیس سالوں میں ہر حکومت مسلسل اور مستقل بین الاقوامی اداروں کی جانب سے عائد شرائط اور مسلط کی گئی پالیسیوں کی تابع رہی ہے۔

پہلی بے نظیر بھٹو حکومت دسمبر 1988میں اقتدار میں آئی اور صرف تین دن کے بعد آئی ایم ایف سے امدا دکی درخواست کرنی پڑی کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے۔1994 بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک اور پیکیج کے لئے معاہدہ کیا۔

نواز شریف نے ”قرض اتارو ملک سنوارو“ مہم چلائی۔ اس مہم کے تحت جو رقم جمع ہوئی اس کے استعمال کا آج تک پتا نہیں چل سکا۔ پرویزمشرف نے عالمی بنک کے ایک پاکستانی نائب صدر ڈاکٹر پرویزامجد کے تحت قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لئے سفارشات تیار کرنے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ کمیٹی کی رپورٹ پر سابق وزیرخزانہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ یہ قرض لے کر قرض اتارنے کی اسکیم ہے۔ اس وقت عالمی بنک کے اسلام آباد میں متعین نمائندے کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک گڑھے کو کھودنے میں مصروف ہے

۔ اس سے قبل نواز شریف کی دوسری حکومت نے سیکرٹری خزانہ معین افضل اور گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر محمد یعقوب کی سربراہی میں دو وفود واشنگٹن بھیجے تاکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک اور اقتصادی امدادی پیکیج حاصل کیا جائے۔ معین افضل ناکام رہے لیکن ڈاکٹر یعقوب جو آئی ایم ایف میں خدمات سرانجام دے چکے تھے‘ ایک اور پیکیج لینے میں کامیاب ہو گئے

۔ پرویزمشرف نے شوکت عزیز کو بطور وزیرخزانہ امریکہ سے درآمد کیا تو اسلام آباد آمد سے پہلے ہی انہوں نے آئی ایم ایف کے اعلیٰ عہدے داروں سے اقتصادی امداد کے لئے گفتگو کی جس میں پرائیویٹ سیکٹر میں بجلی گھروں پر عائد پابندیاں ختم کرنا شامل تھا۔ تیسری پیپلز پارٹی حکومت اور تیسری نواز شریف حکومت نے بھی حسب عادت آئی ایم ایف سے پیکیجز کے لئے معاہدے کئے

۔ پاکستان مسلم لیگ نواز شریف کے منشور میں ”خیرات کا پیالہ“ توڑنا شامل تھا لیکن مئی 2013میں تیسری نواز حکومت برسراقتدار آئی تو آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ دراز کرنے کی عجیب و غریب تاویلیں گھڑیں۔ یہ کہا گیا کہ قرضوں کے حجم میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ صرف پرانے قرضے اتارنے کے لئے نئے قرضے لئے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے 7ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا تو کہا گیا کہ یہ قرضہ پیپلز پارٹی نے آئی ایم ایف سے جو قرضہ لیا تھا اس کی واپسی کے لئے لیا جا رہا ہے۔

اپریل 2014میں وزارت خزانہ کے اعلیٰ افسروں اور وزیرخزانہ اسحق ڈار 500ملین ڈالر کے یورو بانڈ بیچنے کے لئے کئی مغربی ممالک کے دورے پر گئے جس کے نتیجے میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور حکومت نے بجائے 500ملین ڈالر کے دو ارب ڈالر کے قرضے حاصل کئے جو یورو بانڈ کی شکل میں تھے۔ یورو بانڈ وہ قرضے ہیں جو حکومتوں اور مالیاتی اداروں سے نہیں بلکہ غیرملکی بنکوں اور مالیاتی ادارو ں سے حاصل کئے جاتے ہیں۔ ان کی واپسی کی مدت محدود اور شرح سود مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً اپریل 2014میں حکومت نے جو یورو بانڈ بیچے ان پر شرح سود 8فیصد سالانہ ہے۔ یورو بانڈ کے بارے میں بھی اسحق ڈار کا کہنا ہے کہ اس سے دو ارب ڈالر کے ملکی قرضے ادا کئے جائیں گے جن پر 8فیصد سے زائد سود ادا کیا جا رہا ہے۔ یعنی قرضوں کے کل حجم میں اضافہ نہیں ہو گا۔

موجودہ حکومت غیرملکی بینکوں سے مارکیٹ سے بلند ریٹ پر 10-15ارب ڈالر کے قرضے حاصل کرنے کے لئے کوششیں کر رہی ہے جو داسو ڈیم اور بھاشا ڈیم کی تعمیر پر خرچ کئے جائیں گے۔ پرائیویٹ سیکٹر سے حاصل کئے گئے قرضوں کی بنیاد پر دو میگا ڈیمزکی تعمیر کے منصوبوں کے لئے حاصل کئے گئے قرضوں پر شرح سود کم از کم دس فیصد کا اندازہ لگایا گیا ہے کیونکہ یوروبانڈ جو صرف دو بلین ڈالر مالیت کے تھے‘ آٹھ فیصد شرح سود پرحاصل کئے ہیں۔ گویا اگر دس ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا تو اگلے دس سالوں میں دس ارب ڈالر صرف سود کی مد میں ادا کرنے ہوں گے اور یہ ضروری نہیں کہ یہ ڈیم مقررہ مدت میں مکمل ہو جائیں۔

موجودہ حکومت کی ایک اور کامیابی سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی گرانٹ حاصل کرنا ہے۔ یعنی یہ وہ پیسے ہیں جو سعودی عرب نے فی سبیل ا للہ حکومت پاکستان کو فراہم کرنے ہیں اور واپس نہ کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی سعودی عرب نے تین ارب ڈالر اور یو اے ای نے ایک ارب ڈالر حکومت پاکستان کے حوالے کر دئیے ہیں اس کے علاوہ عالمی مالیاتی فنڈکے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کا تین ارب ڈالر قرض پروگرام منظور کر لیا ہے جس کے فوری طور پر ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کی قسط پاکستان کو جاری کر دی گئی ہے چین سے تیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو بھی درحقیقت تیس ارب ڈالر قرضے کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے جو حکومت چین نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں خصوصا بجلی گھروں کی تعمیر اور چین پاکستانی تجاری راہداری کے لیے فراہم کرنے کا عدہ کیا ہے اس امداد کے تحت پاکستان میں چین کی مدد سے بہاولپور میں ایک ہزار میگاواٹ کا جناح سولر پارک،گڈانی کے ساحل پر چھ ہزار میگاواٹ کی کوئلے کی بنیاد پر گڈانی کمپلیکس اور پورٹ بن قاسم پر بارہ سو میگاواٹ کے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر تعمیر کیے جائیں گے

ان سارے بجلی گھروں کے لیے چین قرضے اور مشینری فراہم کرے گا ان بجلی گھروں سے بجلی حکومت خریدے گی اور عوام الناس کو فراہم کی جائے گی پاکستان کو قرضے میں جھکڑنے کی بات پر غورو فکر کی ضرورت ہے کہ پاکستان اس مقام پر کیسے پہنچا ایک ایسا ملک جسے مملکت خداد کہا جاتا ہے جسے قدرت نے ہر طرح کی نعمت سے مالا مال کیا ہے پانچ دریا،دنیا کے آٹھ اونچے ترین پہاڑ اور زرخیز زمین ہم جہاں پہنچ گئے ہیں یہ ہماری منزل نہیں تھی۔ جہاں ہم نے جاناہے‘ یہ وہ راستہ نہیں ہے۔ ہماری فلاح اسی میں ہے کہ ہم محنت‘ خود انحصاری اور لمبی منصوبہ بندی کو شعار بنائیں۔ ہمارا آج ہمارے کل سے جُڑا ہونا چاہئے تاکہ ہماری کل کی نسل ہمارے آج کے مسائل سے آزاد نئے جہانوں کی تسخیر اور تعمیر میں سرگرداں ہو۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں