columns 172

ٹیکسوں کی بھرمار‘عام عوام مشکلات کا شکار

یہ بات بالکل درست ہے کہ کسی بھی حکومت کے پاس جادو کا چراغ نہیں ہوتا کہ وہ اسے رگڑ کر معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈال دے اس کے لئے مسلسل کاوش اور محنت کرنا پڑتی ہے قومی معیشت کا رخ برسوں کی محنت اورجدوجہدکے بعد ہی تبدیل ہوتا ہے پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں موجودہ اضافے سے عام آدمی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں

مہنگائی کا طوفان آگیا ہے اور انرجی سیکٹر میں بجلی اور گیس کے بل مزید بڑھ گئے ہیں۔ اس مہنگائی کے پسے عوام کے لئے یہ بل کسی عذاب سے کم نہیں ہیں در اصل آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان سخت مالیا تی اور زرعی پالیسیوں پر عملد ر آمد کرے اور انرجی کے شعبے میں ٹیرف کے نرخ بڑھائے۔ بجٹ 2024-2025مزید قرضوں کے حصول کے لئے عام آدمی کی قربانی دینے کے لئے پیش کر کے منظور بھی کر لیا گیا ہے۔

پاکستان میں ٹیکس کا نظام طویل عرصہ سے بحث کا موضوع رہا ہے جس میں کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ غیر متناسب طور پر عام آدمی کو امیروں سے زیادہ نشانہ بناتا ہے۔ پٹرول اشیائے صرف اور دیگر ضروری اشیا پر ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ پہلے سے مشکلات کا شکار تنخواہ دار طبقے اور کارپوریشنوں پر بھاری بوجھ بن گیا ہے۔

ہمیشہ کی طرح پالیسی سازوں نے انہی گروپوں پر ٹیکس لگایا ہے جو پہلے ہی قومی خزانہ بھرنے کے لئے اپنا بھر پور حصہ ڈال رہے ہیں پالیسی سازوں کے پاس سوچنے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف موجود ہے پاکستان کے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں پہلے ہی اضافہ ہوا ہے اور دوسری طرف بڑے با اثرشعبے ٹیکسزمیں رعایت اور نرمی سے لطف اندوز ہور ہے ہیں ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے پاکستانی عوام کی گردن معاشی عدم مساوات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں حکومت کی ناکامی کی واضح یاد دہانی ہے۔

امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو با اثر افراد کی حمایت کرتی ہے اور عام آدمی کو نظر انداز کر دیتی ہے سرکاری ملازمین کے لئے یہ بھی غنیمت ہے کہ ہر سال اس کا تنخواہ کچھ نہ کچھ بڑھ جاتی ہے لیکن نجی شعبوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخوا ہوں میں اضافہ کو کون یقینی بنائے گا؟ اس ضمن میں کبھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے آئی ایم ایف کا نشانہ ہمیشہ عوام ہی بنتے ہیں وہ سبسڈی ختم کرنے پر زور دیتاہے یا پھر عام استعمال کی اشیاء پر ٹیکس لگانے یا بڑھانے کی شرط رکھتا ہے۔

اس ایک بات سے ہی اس کی بے حسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ادویات پر بھی ٹیکس لگانے کی شرط عائد کررہا ہے جبکہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وہ ادویات پر بھی ٹیکس لگانے کی شرط عائد کر رہا ہے جبکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ادویات عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ ادویات پر ٹیکس لگانے کا مطلب غریبوں کو زندہ درگور کرانے کے مترادف ہے ہماری اشرافیہ کو چونکہ ہر چیز مفت مل جاتی ہے یا پھر اس کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ اس قسم کی مہنگائی اسے چھو کر بھی نہیں گزرتی لیکن اشرافیہ کے وہ نمائندے جو حکومت میں موجود ہیں انہیں تو عوام کی خاطر آئی ایم ایف کے سامنے مزاحمت کرنی چاہیئے۔

بجلی گیس اورپٹرول تو پہلے ہی آئی ایم ایف کی نگرانی میں دے کر قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے اور بجلی تو پورے ایشیا میں سب سے مہنگی پاکستان میں ہے۔ جبکہ اوسط آمدنی کے لحاظ سے پاکستان، سری لنکا سے بھی پیچھے کھڑا ہے ہمارے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی جو صورتحال ہے اس سے عام آدمی اور خاص طور پرنو جوان مایوس ہوتے جار ہے ہیں

اپنے اور ملک کے مستقبل کے بارے میں نا امید اور
مایوس ہو جانا نہایت خوفناک رجحان ہے۔ اکثر پاکستانی ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک منتقل ہونے کے خواہشمند ہیں انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کر نا پڑتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی پیٹرولیم مصنوعات بجلی اور گیس کے بلوں نے عذاب بنا رکھی ہے۔ بجٹ میں اپوزیشن کی جانب سے دی گئی تمام تجاویز کوحکومت کے کثرت رائے سے مسترد کر دیا ۔

حکومت کا بجٹ منظور کرنا اور اپوزیشن کی تجاویز پر کان نہ دھرنا یہاں کی پارلیمانی روایت رہی ہے جسے اب ختم ہونا چا ہیے۔ دنیا بھر میں مضبوط معیشت اسے سمجھا جاتا ہے جہاں عوام میں قوت خرید موجود ہو کیونکہ معیشت کا پہیہ تب ہی چلتا ہے جب عوام اس میں حصہ لیتے ہیں۔ حکومت کو عام پاکستانی کی حالت زار کا ادراک ہونا چاہیے اور ان پر ٹیکس کا بھاری بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔

بجٹ 25-2024 نافذ کر دیا گیا ہے جس کے عوام دوست ہونے کے حکومت کی جانب سے بہت دعوے کئے گئے ہیں مگر اس کی عوام دوستی نے عوام کی چیخیں نکلوانا شروع کر دی ہیں بجلی کے بل دیکھ کر عوام سکتے میں آگئے ہیں لوگوں کا کہنا ہے کہ موجودہ وفاقی بجٹ تین چیزوں سے عبارت ہے۔ نئے ٹیکس لگانا، ٹیکسوں میں چھوٹ کا خاتمہ اور پہلے سے نافذ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ لیکن اس کے باوجود پتہ نہیں کے حکمران کیسے مطمئن نظر آتے ہیں موجودہ حکومت کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ عام آدمی یعنی متوسط طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ نہیں بڑھایا جائے گا اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کر کے امیر طبقے کو ٹیکس دینے والوں میں شامل کیا جائے گا

لیکن ہمیشہ کی طرح اس کے بالکل برعکس ہوا ہے۔ عام آدمی کی جیب سے ہی زیادہ سے پیسے نکلوا کر ریونیو کے اہداف پورے کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ پہلے ” سے مہنگائی کے شکار عوام آخر کتنا ہو جو برداشت کر سکتے ہیں حقیقت میں ایسا ہو رہا ہے جب ٹیکس نیٹ وسیع نہیں کیا جا سکتا اور ریونیو کے اہداف پورے نہیں ہو پاتے تو حکومت بار بار انہی چیزوں کے نرخ بڑھانے پر توجہ دیتی ہے جن پر اس کا کنٹرول ہے اور جو عوام کی بنیادی ضروریات میں شمار ہوتی ہیں

بجلی کی بات کی جائے تو بجلی کے نرخ مسلسل بڑھائے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ اتنا دراز ہو چکا ہے کہ چند ماہ پہلے جن گھروں کا بلی کا بل چند سو روپے آتا تھا وہ اب کئی ہزار روپے آ نے لگا ہے اورجن کا بل ہزاروں میں آتا تھا وہ لاکھوں کا بل دیکھ کر صدمے کی کیفیت میں ہیں لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا وہ پورا مہینہ کمائی کرنے کے بعد صرف بجلی کا بل ادا کریں اور اپنے اور بچوں کے پیٹ پر پتھر باند ھ لیں

اور دوسری ضروریات کا گلا گھونٹ دیں حکومت کو ملک کو درپیش معاشی دباؤ کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ایک منصفانہ اور جامع ٹیکس نظام جس میں سب لوگ اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں سب کے لئے پائیدار اقتصادی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے حکومت کومعاشی عدم مساوات کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنے اور ایک منصفانہ اور جامع ٹیکس نظام کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کر نے کی ضرورت ہے اس کے بعد ہی پاکستان پائیدار اقتصادی ترقی اور خوشحال کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں