199

ٹورازم ہائی وے پہ بڑھتے حادثات

میگا سیاحتی پروجیکٹ ٹورازم ہائی وے جو کلرسیداں سے مری تک بننا تھا۔ فیز ون میں بمشکل تیس کلومیٹر چوکپنڈوڑی تا بیور ہی مکمل ہو پایا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت ختم ہونے کے بعد اس منصوبے کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔

بہرحال بیور سے چوکپنڈوڑی تک تقریباً ہر حال سے مکمل اس ہائی وے پہ ٹریفک کی آمد بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ اسکی سب سے پہلی اور بڑی وجہ کہوٹہ پنڈی روڈ اور سہالہ فلائی اوور کا نہ بننا ہے

۔کوٹلی، سہنسہ اور گردونواح کی تمام پبلک ٹرانسپورٹ، ایمرجنسی سروس گاڑیاں اور ہیوی ٹرانسپورٹ بھی ٹورازم ہائی وے پہ منتقل ہوئی ہے۔ پاکستان اور کشمیر کو لنک کرنے میں ایک اور پل کا اضافہ ہوا ہے جو کہوٹہ کی علاقے سالگراں میں بنایا گیا ہے جو کشمیر کے علاقے سہنسہ ڈھڈیال اور گلپور کو ملا رہا ہے۔

جیسے جیسے لنک روڈ بہتر ہونگی ٹورازم ہائی وے پہ ٹریفک کا دباؤ بڑھے گا۔ اس وقت بھی تقریباً چوبیس گھنٹے ٹریفک جاری رہتی ہے۔ یقننا ہائی ویز آسان سفر اور رابطے سہولت کیلئے بنائی جاتی ہیں

۔لیکن اس ہائی وے کے بننے کے ساتھ ہی ٹریفک کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے جو متعلقہ اداروں کیلئے بھی توجہ کا طالب ہے۔ پنجاب ہائی وے پٹرولنگ چوکپنڈوڑی جنکی حدود تحصیل کہوٹہ کے مقام ٹورازم ہائی وے چونترہ اور کلر کہوٹہ روڈ پہ چنام تک بنتی ہے۔

ان دونوں روٹس پہ پٹرولنگ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ دوسری طرف سٹی ٹریفک پولیس کلرسیداں کی بھی حد یہی بنتی ہے۔ صرف چالان پورے کرنے کیلئے پکھڑال تک کھڑے دیکھے گئے ہیں۔

جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی اوور لوڈنگ، اوور چارجنگ، وہیکل فٹنس کا بھی سختی سے چیک کرنا ضروری ہے جو کہ فی الحال نہیں ہورہا۔ اس معاملے میں سٹی ٹریفک پولیس کہوٹہ سب سے زیادہ ذمہ دار ہے

جنکے پاس ٹورازم ہائی وے کا مکمل ہوا 27کلومیٹر کا روٹ آتا ہے۔ لیکن اس ہائی وے پہ آنے کی کبھی کوئی خبر سامنے نہ آئی۔متعلقہ اداروں کی عدم توجہ کے باعث ٹورازم ہائی وے پہ آئے روز حادثات ہورہے ہیں

جنکی تفصیل ٹریفک پولیس راولپنڈی آفس سے شیئر کیجاتی ہے۔ پچھلے دو ماہ کے اندر یہان درجنوں ہیوی گاڑیوں کے بھی حادثے ہوچکے ہیں خوش قسمتی سے ان میں جانی نقصان تو نہ ہوا
البتہ مالکان اور ٹرانسپورٹرز کا لاکھوں کروڑوں میں نقصان ہے۔

سٹی ٹریفک پولیس راولپنڈی آفس نے ٹورازم ہائی وے کے روڈ ڈیزائن میں چند خامیوں کی بھی نشاندہی کی ہوئی ہے جس وجہ سے حادثات معمول ہیں جو ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کئے جاچکے ہیں۔ٹورازم ہائی وے پہ ابھی تک معلوم حادثات کی بات کی جائے

تو اس میں درجنوں افراد زخمی، شدید زخمی اور مصدقہ معلومات کے مطابق ایک خاتون سمیت دو تین افراد جانبحق بھی ہوچکے ہیں۔اچھی اور نئی روڈ بائیکرز کیلئے ریس کرنے کی بھی بہترین جگہ شمار ہوتی ہے

جو جرم کے ذمرے میں آتی ہے ٹورازم ہائی وے تھوہا خالصہ پہ سترہ ستمبر کو کیری ڈبے اور موٹرسائیکل کے تصادم میں دو افراد جان کی بازی ہار گئے، جو مبینہ طور پہ ریس لگا رہے تھے۔

جبکہ تیسرے فرد کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ جانبحق ہونے والے کے لواحقین کی درخواست پہ حادثے کے حق ذمہ دار کے خلاف تھانہ کہوٹہ میں ایف آئی آر درج ہوچکی ہے اس سے پہلے بھی موٹر سائیکل سواروں کے لاتعداد حادثے ہوچکے ہیں۔ جن میں درجنوں افراد زخمی اور ایک خاتون کی موت بھی ہوئی ہے

۔ سکول اور دن کے اوقات میں کمر عمر بچے موٹرسائیکل چلاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ریس لگانا مشغلہ بن چکا ہے۔ جبکہ تمام نجی اور سرکاری سکول بھی مین ٹورازم ہائی وے پہ واقع ہیں۔ سرکاری سکولوں، کنوؤں سے موٹریں چوری، جانوروں کی چوری بھی ہائی وے بننے سے بڑھی ہے۔اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے

کہ سکولوں کے پاس اور بازار میں سپیڈ کنٹرول کرنے کیلئے سپیڈ بریکر لگائے جائیں، گاڑیوں کی سپیڈ کیلئے مختلف اوقات میں چیکنگ اور سپیڈ کیمرہ لگائے جائیں

۔ روٹ والی گاڑیوں کے روٹ چیک اور کشمیر کی ٹریفک کو بھی بالخصوص چیک کیاجائے۔ اوور لوڈنگ، اوور فیئر چارجنگ کو روزانہ کی بنیاد پہ چیک کرنا ضروری ہے

۔ پنجاب ہائی وے اور سٹی ٹریفک پولیس اپنی پٹرولنگ کا دائرہ کار بڑھائے تاکہ پرامن سفر کیساتھ دیگر جرائم کے واقعات میں بھی کمی ہو۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں