216

وفاقی ضلع میں لینڈ قبضہ گروپوں کا راج

محمد عتیق فرہاد/خطہ پوٹھوہاروفاقی ضلع اسلام آباد کو دارالحکومت ہونے کی وجہ سے ملک بھرمیں مرکزی حیثیت حاصل ہے،1959ء ایوب خان کے دورمیں اسلام آباد کو وفاق بنایا گیا،وفاقی ضلع کو جغرافیائی لحاظ سے مشرقی اور مغربی طرفین میں عدالتی حوالے سے تقسیم کیا گیا ہے،2018کے عام الیکشن میں نئی حلقہ بندی کی رو سے قومی اسمبلی کی تین نشستوں این اے 52،53،54 میں منقسم کیا گیا،وفاقی پولیس کے پوراضلع میں حدود اربعائی لحاظ سے ایک وویمن تھانے سمیت23تھانوں پر مشتمل ہے،جن کوزون وائز 1انڈسڑیل،2سٹی، 3صدر،4 رورل میں تقسیم کیا گیا ہے، ان مذکورہ تھانوں سمیت پولیس کے مختلف ڈویژن میں کل 10500 پولیس افسران و ملازمین کی نفری اپنی ڈیوٹی انجام دے رہی ہے،جن میں 2008ء کے بعد 2019ء1ہزار نئے ریکروٹ کی بھرتی بھی شامل ہے، جبکہ 50یونین کونسلیں 2015ء کے بلدیاتی الیکشن میں بنائی گئیں تھیں،وفاقی ضلع میں ایک تحصیل میں 36پٹواری موضعات میں کام کر رہے ہیں جبکہ 2018ء کے عام الیکشن میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 23 لاکھ آبادی ظاہر کی گئی ہے،تمام پاکستان کے بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا تناسب 8سے 11 فیصدی ہے جبکہ اسلام آباد کی سالانہ شرح آبادی 14سے 16فیصدی ہے، قارئین کرام تک مذکورہ بالا وفاقی ضلع بابت معلومات کا ذکر اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ جرائم بارے حقائق ازبر ہوسکیں۔ جنرل مشرف کے دوراقتدار میں جب پراپرٹی انویسٹر نے وفاقی دیہی علاقوں میں اپنی نظریں جمائیں تو اس میں مرکزی کردار ریونیو ڈیپارٹمنٹ، پولیس،انتظامی افسران،بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ سیاسی شخصیات بھی شامل تھیں،جنہوں نے جہاں وفاقی مقامی آبادیوں پر طرح طرح کی اقوام مسلط کیں وہاں ایک زور آور نہ تسخیر ہونے والی لینڈ مافیا قبضہ گروپوں جیسی مافیا کو جنم دیا جس نے مذکورہ بالا مافیا کی پشت پناہی سے ان پڑھ،سادہ لوح،غریبوں،کاشکاروں کا جینا محال کر کے رکھ دیا ہے،وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اس مافیا نے تمام شعبہ ہائے روزگار زندگی کے ساتھ عدلیہ، پولیس، انتظامی اداروں جیسے معتبر و بااختیار وں کو بھی بے اختیار کر دیا یہ وہ حقائق ہیں جن پر شائد کسی کی نظر پڑ نہیں سکتی اگر پڑے بھی تواس کا تدارک ممکن نہیں کیوں کہ جو اس مافیا کے پاس گیدڑ سینگھی ہے اس سے تمام چٹے کالے کام کیے جاسکتے ہیں، اس مافیا نے اپنے پنچے ان اداروں میں گاڑھ رکھے ہیں جو کسی بھی ریاست کے اہم ستون شمار ہوتے ہیں جن میں عدلیہ،انتظامیہ،مقننہ اور میڈیا جیسے ذمہ داران ادارے شامل ہیں،اس مافیا نے جہاں پاکستانی مذکورہ اداروں کو متاثر کیا وہاں پاکستانی معاشرہ میں غریب اور امیر طبقات میں تفریق کا عنصر واضح کیا جس کی وجہ سے احساس کمتری کے ساتھ،غریب،مستحق، مقامی شہریت رکھنے والوں،روزگار،تعلیم، صحت، قانونی و شرعی حقوق، وسائل سے محروم کیا، جرائم کی شرح میں نہ ختم ہونے والی حد کو عبور کیا،معاشرتی رویوں کا ختم ہونے کی حد تک لا کھڑا کیا،فحاشی عریانی،قحبہ خانوں اغواء براہ تاوان،چوری ڈکیتی،قتل، منشیات فروشی و نوشی جیسے سنگین جرائم سے دوچار کیا،ان مذکورہ سنگین جرائم پر اگر وفاقی پولیس کے ایماندار افسران، عدلیہ، مقننہ،انتظامیہ بھی اپنے مکمل اختیارات استعمال کرے تو بھی کچھ نہیں ہوسکتا،اس کی بنیادی وجہ اس مافیا نے وطن عزیز میں نافذالعمل قانون (فوجداری، دیوانی)آئین کی تمام جہتوں کو مذکورہ بالا اداروں میں بیٹھے کرپٹ عناصر سے ہاتھ جوڑ رکھے ہیں جن کا ایمان ہی روپیہ پیسہ، مراعات، نفس امارہ، خواہشات نفسانی ہے، اس مافیا کے نزدیک ملکی سلامتی کے بجائے اپنی سلامتی سب سے عزیز ہے،اس کے لیے وہ طرح طرح کی این جی اوز،ٹرسٹ،مساجد،مدارس کی پناہ میں فوٹو سیشن کے لیے،دکھلاوے کے لیے لاکھوں کے حقوق غصب کرکے اربوں روپے کما کر ہزاروں روپے غریبوں میں خرچ کرکے سب سے بڑے ڈونیٹری کی مسلمانی کے القابات کی مہر ثبت کروا لیتا ہے، اب اس مافیا کی کیٹا گری میں بے شمار شاخیں بھی بن چکی ہیں جن کا مرکز و محور وہی پراپرٹی ٹائیکون ہی ہیں جن کے آگے سب حکومتیں،بااختیارادارے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں،اسی تناظر میں وفاقی ضلع کے136سے زائد دیہی موضعات کے ہزاروں مقدمات سول،سیشن،ہائی کورٹ اور سپریم کورٹس میں زیر بحث ہیں جو سالہ سال سے فیصلے کے منتظر ہیں کئی ایک کے فیصلے بھی ہوچکے مگر اس مافیا نے ان فیصلوں کی دھجیاں ہوا میں اڑا رکھی ہیں،اسی مافیا کے کارناموں کے پیش نظر آج وفاقی ضلع کے تمام تھانوں بالخصوص رورل زون کے تھانوں میں اوباش لڑکوں،نوجوانوں کے سینکڑوں گروپوں نے جنم لیا جو غیر اخلاقی طور پر،معاشرتی رویوں کو بھی نا پورا ہونے والا گزند پہونچا رہے ہیں،ا۔ علاوہ ازیں آج وفاقی رورل زون کے تھانوں میں آئے روز جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے مگر ان جرائم کے تدارک کے لیے وفاقی پولیس انتظامیہ اپنی طرف سے بنائی جانیوالی حکمت عملیوں کے باوجود قابوپانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے یا پھر روایتی کاروائیوں سے اپنے اعلیٰ افسران کو سب اچھا کی رپورٹ دینے کے لیے 30سے40فیصدی واقعات کی رپورٹ میں ملاوٹ کرکے یعنی ڈکیتی کو چوری میں بدل دیتی ہے جس سے دفعات میں زمین آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے پولیس کی انہی روایتی کاروائیوں کے پیش نظر شریف النفس شخص آج اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو بتانے کے لیے تھانے جانے سے قاصر نظر آتا ہے گزشتہ روز تھانہ سہالہ کی حدود ناڑہ سیداں نئی آباد ی میں رات کے وقت دو متحارب گروپوں میں شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا،اور جدید قسم کا اسلحہ استعمال کیا گیا،شدید فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص راناعلی سکنہ راولپنڈی موقع پر جاں بحق ہوگیا،جبکہ 5افراد حسن علی شاہ عرف سنی شاہ،شبیر حسین شاہ،غوث علی شاہ ساکن آڑی سیداں،عدنان غفار کیانی اور منان سکنہ ہردوگہر شدید زخمی ہوئے،کئی گھنٹے فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا اور مین شاہراہ بند رہی جس سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا زخمیوں کو فوری طور پر پمز اسپتال منتقل کیا گیا،تھانہ سہالہ اور کہوٹہ کی پولیس موقع پر پہونچ گئی،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان دو گروپوں کے پاس اتنا جدید اسلحہ کہاں سے آیا،اور کس مقصد کے لیے استعمال ہونا تھا اور کس مقصد کے لیے استعمال ہوا۔؟یہ پولیس کے لیے لمحہ فکریہ ہے،یہ وہ معمولی واقعات ہیں جو معمول کا حصہ بن چکے ہیں،وفاقی رورل زون کے تھانوں میں مکمل قبضہ،لینڈ مافیا کا راج ہے، اکثر مذکورہ رورل زون کے تھانوں سہالہ،لوہی بھیر،کورال،نیلور،کھنہ،شہزاد ٹاؤن میں اراضی قبضہ،چیک ڈس آنر کے عمومی واقعات رونما ہوتے ہیں جن کی کوئی شنوائی نہیں ہوپاتی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں