ورلڈ جسٹس پرو جیکٹ ایک آزاد تحقیقی ادارہ ہے جو قانون کی حکمرانی کے زاویے سے پوری دنیا کے مختلف ممالک کو حددرجہ احتیاط سے پرکھتا ہے اور ان کی داخلی صورت حال پر رپورٹ شا ئع کرتا ہے
یہ پروجیکٹ 2006ء میں امریکی بار ایسوسی ایشن کے تو سط سے شروع کیا گیا اور جلد ہی اس پروجیکٹ میں اکیس مزید اہم ادارے شامل ہوگئے
‘ اس کے دفاتر واشنگٹن سنگار پور اور میکسیکومیں قائم ہیں اس ادارے میں دنیا کے ممتاز ترین لوگ شامل ہیں تین ہزار پانچ سو ماہرین نے سروے مکمل کیا ہے
اس میں سابقہ امریکی صدر سے لے کر ممتاز ماہرین قانون اور ہر شعبے کے ایسے مستندلوگ موجود ہیں جن کی رائے کا احترام کیاجاتاہے اس پروجیکٹ نے2024ء میں پاکستان اور پوری دنیا کے ایک سو بیا لس مختلف ممالک کے متعلق جو رپورٹ شائع کی ہے
وہ ہمارے حوالے سے پڑھنے کے قابل ہے۔ہمارے ملک کے متعلق یہ رپورٹ صرف اور صرف ایک مر ثیہ ہے ہمارے بلند قا مت نظر آنے والے وزرائے اعظم اور وزرا ئے اعلیٰ کی مجموعی کارگردگی
جو کہ پاکستان میڈیا کے حساب سے حددرجہ بہترین ہے اس کی اصل تصویر اس ادارے نے سب کے سامنے پیش کر دی ہے۔ کو ئی بھی سنجیدہ آدمی اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد ٹینشن میں مبتلا ہو جا ئے گا
مگر آفرین ہے ہمارے حکمرانوں پر جنھوں نے اس رپورٹ کا تذکرہ تک کرنا پسند نہیں کیا پاکستا ن اس وقت نہ صرف معاشی طور پر دیوالیہ ہو نے کے قریب ہے بلکہ سماجی انصاف عام آدمی کی زندگی روزگار انسانی تخفظ مہنگائی کرپشن اور دیگر عناصر کے حوالے سے اس پا تال میں گر چکا ہے
جس سے نکلنا نا ممکن نظر آرہا ہے۔ پا کستان کے متعلق رپورٹ میں آٹھ اہم ترین عناصر کا جا ئزہ لیاگیا ہے اور ان کے حساب سے دنیا کے دیگر ممالک کے متعلق پر اس کی رینکنگ کی گئی ہے پہلا عنصر حکو متی طا قت سے جا ئزہ قدغن کا ہے اس کے مطا بق حکو متی او ر ریاستی اعمال کی
طاقت اور اختیا رات پر آئینی ادارہ جا تی کو ن کو ن سے کنٹرول ہیں جو ان کو ہر زاویے سے قانون کے دائرے میں مقید کر تے ہیں گزشتہ ایک سال میں ریاستی اور حکومتی طاقت کا بے دریغ اتنا استعمال کیا گیا ہے
کہ ہمارا ملک پاکستان ایک سو بیالیس ممالک کے اندر ایک سو تین نمبر پر کھڑا ہے دوسرا عنصر کرپشن کے متعلق ہے کرپشن میں تین جزورکھے گئے ہیں
مالی رشوت،سر کاری اور پرائیو یٹ ملا زمین کا نا جا ئز رویہ اور حکو متی فنڈز میں خوردبر د شامل ہے ان میں انتظامیہ‘ عدلیہ‘ پو لیس اور سیاسی لو گ شامل ہیں ایک سو بیالیس ممالک میں پاکستان کا نمبر ایک سو بیسواں ہے۔
حکومتی شفا فیت کے مطابق یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت اپنے معاملا ت کو کتنے بہتر طریقے سے لو گو ں کے سامنے پیش کر تی ہے اور اس میں کتنی صداقت اور سچ مو جود ہو تا ہے اس تیسرے عنصر میں پاکستان ایک سو چھ نمبر پر ہے ہمارے حکومتی اور ریاستی اداروں کے اندر وہ رجحان موجود ہی نہیں ہے
جس سے وہ عوام الناس کو اپنی کارکردگی بتا سکیں یہ گھپ اندھیرا پورے پاکستان کو تاریک کر چکا ہے اورصرف چند محلوں میں روشنی با قی ہے وہ کن لو گوں کے قلعے ہیں
ہر ایک کو اس کے متعلق بخوبی علم ہے انسانی بنیادی حقوق وہ چو تھا عنصر ہے جس میں پاکستان کو پرکھا گیا ہے قانو ن کی حکمرانی اس کا بنیادی جزو ہے
ایک سو بیالیس ملکوں میں پاکستا ن 125نمبر پر کھڑا ہے اور ا س رپو رٹ کے مطا بق ہمارا ملک مزید ذلت کی طرف گا مزن ہے ذرا سو چئے کہ کیا انسا نی حقوق واقعی پاکستان میں کسی بھی طرح سے موجود ہیں۔قانون کی کتابوں میں میں ان کا تذکرہ تو مو جود ہے
مگر زمین پر یچیس کر وڑ عوام کسی قسم کا کو ئی بنیا دی حق نہیں رکھتے اس سے زیادہ کسی ملک کی کیا بے تو قیری ہو سکتی ہے کہ ایک بین الاقوامی ساکھ رکھنے والا ادارہ اس کی زبوں حالی کو عیاں کر رہا ہے
اگلا عنصر یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں لوگوں کو تحفط حاصل ہے یا نہیں؟ مقام افسوس ہے کہ انسانی تحفظ کے اہم عنصر ہیں ہم سے صرف دو ملک نیچے اس ایک سو بیالیس ملکوں میں ہماری پوزیشن ایک سو چالیس ہے
یہ مکمل سچ ہے کہ پاکستان میں کو ئی بھی شخص کسی بھی طرح سے محفوط نہیں ہے اور جو کا لک ہمارے چہرے پر مو جو د ہے وہ پوری دنیا کو نظر آرہی ہے
۔اگلا عنصر ملک کے نظام پر مختلف قوانین اور انتظامی فیصلوں کو نا فذکرنا ہے اس میں حکو متی اور غیر حکومتی ادارے دونوں شامل ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس سیڑ ھی پر کس جگہ کھڑے ہیں
ہم ایک سو بیالیس ملکوں میں ایک سو ستائیس نمبر پر کھڑے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہماری حکومت قوانین کو لو گو ں پر انصاف سے لا گو کرنے میں استطا عت ہی نہیں رکھتی‘
حقیقت میں ہمارے بد قسمتخطے میں قوانین صرف کمزور لوگوں پر عائد کئے جاتے ہیں۔بڑی مچھلیاں قوانین کو اپنے اوپر لاگو ہی نہیں ہو نے دیتیں ہر سطح پر ایسے مخصوص گروہ اور افراد مو جود ہیں
جو قانون اور اس کے نفاذسے بالا تر‘ اس ہمارے حکمرانوں میں اختیارات کی لگام ان لو گو ں کے ہاتھ میں ہے اگلا عنصر ہے کہ کیا سول انصاف کا ایسا نظام ہمارے ملک میں موجود ہے جو لو گوں میں کرپشن اور دیگر عناصر سے بالا تر ہو کر ان کے معاملا ت کرتا ہے اس میں وہ عدالتی نظام بھی پرکھا گیا ہے
کہ کیا اس میں لو گوں کو سول انصاف کی حد تک تا خیر کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا اور سول عدالتیں اپنے فیصلوں پر عملدار آمد کرواپاتی ہیں۔ اس عنصر میں بھی پا کستان بہت پیچھے ہے
ایک سو اٹھا ئیس نمبر بر اجمان ہو نے کا مطلب یہی ہے کہ ہمارے سول عدالتی ادارے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں بھر پو ر طریقے میں غیر فعال اور ناکام ہیں آخری یعنی آٹھواں عنصر کر یمنل جسٹس کے متعلق ہے
اس میں مختلف جرائم کے متعلق جزاء اور سزا کا نظام اور اس کے ساتھ پو لیس عدالتیں وکلا ء جیل حکام اور پراسکیوٹرز کی کارکردگی پر غور کیا گیا ہے
اس میں ہمارا ملک اٹھا نوے نمبر پر ہے اس رپو رٹ کے آخر میں ہمارے ملک کی مجموعی کا رکردگی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔یعنی تمام آٹھ اہم عناصر کو ملا کر مجموعی تصور کیا بنتی ہے یہ دیکھنا حد درجے اہم ہے پو ری دنیا کے ایک سو بیالیس ملکوں میں ہمارا وطن ایک سوانتیس نمبر پر ہے
یعنی انتظامی خراب کارکردگی عدم تحفظ رشوت ستانی‘کرپشن‘ انسانی حقوق کی پامالی‘ انصاف کی غیر موجودگی اور غیر شفافیت میں صرف تیرہ ممالک ہم سے نیچے ہیں۔
حکومتی دعوے اور اعلانات کے باوجود ہم تمام پاکستانی لوگ ڈوبی ہو ئی کشتی کے وہ مسافر ہیں جو ڈو بنے سے بچنے کے لئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں مگر اس کے عکس ہمارے حکومتی ادارے عوام کر سروں میں کیلیں ٹھو نک ٹھونک کر انہیں غرق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے کسی رکن کی پاکستان سے کوئی دشمنی نہیں ہے پو ری دنیا اس ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ کے حساب سے ملکوں سے معاملات کا یقین کرتی ہے دراصل یہ ایک سہنہ ہے
جو کسی بھی ملک کو حد درجے غیر منتخب طریقے سے دی جاتی ہے پاکستان سے نیچے ایتھوپیا،افغانستان، مصر اور کمبوڈیا جیسے ممالک ہیں جہاں کسی قسم کی قانون کی حکمرانی سرے موجود ہی نہیں ہے
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہر زاویے سے دنیا کا بہترین ملک ڈنمارک قرار دیا گیا ہے جع ہر اعتبار سے دنیاوی جنت سے کم نہیں ہے۔