202

وائے حسرتا

بقول شیخ سعدی ایک شب ایام جوانی میں کچھ دوست باہم مل کر خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ ہمارا ایک ہمدم بوڑھا بھی آ گیا۔ ایک نوجوان نے بڑے میاں کو خاموش پا کر کہا۔ آپ کس سوچ میں غلطاں ہیں، ہنسی ٹھٹھول سے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کریں۔ بوڑھے نے ایک سرد آہ بھر کر کہا۔ برخوردار! صبا کے جھونکوں سے جھومنا ان درختوں کو ہی زیبا دیتا ہے جن کی شاخیں پتوں سے لدی ہوئی ہوں‘بوڑھا درخت جنبش کرے تو ٹوٹ جاتا ہے۔شب جوانی کی سحر ہونے پر ہوس کو سر کے نہاں خانوں سے نکال دینا ہی بہتر ہے۔ میری جوانی دیوانی فضول کاموں میں ختم ہوگئی۔ فضول خواہشات نے مجھے دین سے غافل رکھا وائے افسوس کسی استاد نے اپنے شاگرد سے کہا تھا۔وائے حسرتا! وقت ختم ہو گیا اور کام ابھی باقی ہے۔
حاصل کلام:بڑھاپے میں انسان کو لہو و لعب سے اجتناب کرنا چاہیے۔ زندگی کا انجام بہرحال موت ہے۔ غیر فانی زندگی کیلئے اچھے اعمال کرنا ضروری ہیں۔
٭……طلحہ زبیر……٭

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں