قارئین کرام! رئیل اسٹیٹ منافع بخش کاروبار ہے اور اس سے ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کو قبضہ مافیا نے پوری طرح شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، ناجائز طریقے سے لوگوں کی زمینوں پر قبضے کرنا، قتل و غارت کرنا، دہشت پھیلانا اور پھر وہاں پر ہاؤسنگ سوسائٹی کا بورڈ لگا کر پھر اربوں روپے اینٹھنا قبضہ مافیا کا مرغوب مشغلہ ہے، گوجرخان میں مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز نے دو سال قبل جب اپنے ہورڈنگ بورڈ لگانا شروع کئے تو تحصیل گوجرخان کے باسی بہت خوش ہوئے کہ ہمیں راولپنڈی، اسلام آباد کا لائف سٹینڈرڈ یہاں ملے گا اور ہمیں اب دور کا سفر کرنے کی ضرورت نہیں رہی، ان ہاؤسنگ سوسائٹیز میں نیو میٹروسٹی گوجرخان کا نام سب سے پہلے منظر عام پر آیا جنہوں نے تشہیر کے تمام ریکارڈ توڑے اور پھر موقع پر مشینری لگاکر لوگوں کو حیران و پریشان کر دیا،
نیو میٹروسٹی گوجرخان نے جب پلاٹس کی فائلیں فروخت کرنا شروع کیں تو ان کے دفتر میں اتنے ڈیلرز موجود تھے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی، کراچی تک ڈیلرز نے فائلیں خریدیں اور آگے فروخت کیں، لوگوں نے بینک خالی کر کے فائلیں خرید لیں اور پھر قسطیں دینا شروع ہوئے، نیو میٹروسٹی انتظامیہ نے اپنا پہلا پروگرام کیا تو کسٹمرز کے سامنے بڑے بڑے دعوے کئے، لوگوں نے ان دعوؤں پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا، چند ماہ گزرے تو نیو میٹروسٹی، بی ایس ایم ڈویلپرز نے ایک نئی سکیم متعارف کرائی کہ تمام رقم کی یکمشت ادائیگی کریں اور رعایت حاصل کریں، وہ شہری جو پلاٹ جلدی لینے کے خواہشمند تھے انہوں نے گھروں سے زیور تک بیچ کر یکمشت رقم ادا کر ڈالی، یکمشت ادائیگی کرنے والوں میں بڑی تعداد اوورسیز پاکستانیوں کی بھی ہے جنہوں نے اندھا اعتماد کرتے ہوئے نیو میٹروسٹی کو اربوں روپے دیئے، پھر اس کے بعد لمبی خاموشی چھا گئی، اس موقع پر جب نیو میٹروسٹی کے مالک ملک بلال اور کنٹری ہیڈ زرعون مسعود کے تمام تر دعوے ہوا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، کسی ایک بھی وعدے پہ دیئے گئے ٹائم فریم میں عمل نہیں ہوا تو اس وقت نیو میٹرو سٹی گوجرخان نے عوام کو مزید لوٹنے کا پلان تیار کر لیا،
خواتین ملازمین کے ذریعے فون کالز کے ذریعے کسٹمرز کو ہراساں کیا جارہاہے، دس فیصد ڈسکاونٹ کا لالچ دے کر لوگوں سے پلاٹ کی تمام رقم ہتھیانے کے بعد فی مرلہ 3لاکھ روپے ڈویلپمنٹ چارجز کی مد میں لینے کا اعلان کیا گیا ہے، جس پر ہر شخص حیران و پریشان ہے کہ پلاٹ کہیں نظر نہیں آرہا تو ہم ڈویلپمنٹ چارجز کس چیز کے دیں اور اتنی بڑی رقم کہاں سے لاکر دیں گے، 18لاکھ کا پلاٹ لیا گیا اور اس پہ 15لاکھ ڈویلپمنٹ چارجز کا کہا جا رہاہے، لوگوں نے آواز بلند کرنا تو شروع کی لیکن نیو میٹروسٹی کے ہیڈ آفس سے جو فون کالز کسٹمرز کو موصول ہورہی ہیں اور پلاٹ کینسل کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ان پہ شہری شدید پریشان ہیں، اس وقت نیومیٹروسٹی کی فائل آدھے ریٹ پر فروخت ہورہی ہے، شہری پریشان ہیں کہ ڈویلپمنٹ چارجز کی رقم کہاں سے لائیں؟ فائل فروخت کریں تب بھی شدید نقصان ہورہاہے
اس وقت ڈیلرز فائدہ لینے کے چکر میں ہیں جنہوں نے مجبور لوگوں سے آدھی قیمت پر فائلیں لے لینی ہیں اور پھر جب ریٹ بڑھیں گے تو وہ من مرضی کی رقم لے کر فائلیں دیں گے۔ نیو میٹروسٹی گوجرخان کی انتظامیہ نے صرف اور صرف خود فائدہ لیا اور اپنے ڈیلرز کو فائدہ دیا، ڈیلرز سے کیا گیا وعدہ پورا کیا کہ جو کل موٹرسائیکل پہ تھے وہ آج لینڈ کروزر میں بمعہ سیکورٹی گارڈز گھوم رہے ہیں، ڈیلرز کو سوسائٹی کے اندر دفاتر بھی بنا کر دے دیئے، یکم ستمبر کو انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ پارک اس ماہ کے آخر تک کھول دیا جائے گا مگر اب دسمبر جا رہاہے اور 18نومبر کی تاریخ دے کر بھی اس کا افتتاح نہیں کر سکے، دوسری جانب فلسطین اور غزہ کے حالات کے پیش نظر میکڈونلڈ کا کام بھی سست روی کا شکار ہے اور انتظامیہ ممکنہ احتجاج کے پیش نظر میکڈونلڈ اور پارک کا افتتاح نہیں کر پا رہی، حالانکہ جب میکڈونلڈ کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا تو اعلان کیا گیا تھا کہ 90دنوں میں یہ مکمل ہوکر فنکشنل ہو جائے گا، 90دن تو گزر گئے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کو کب فنکشنل کیا جاتا ہے۔ اس سوسائٹی کی قانونی حیثیت پہ بات کی جائے تو آج جب میں تحریر لکھ رہا ہوں تو اس وقت تک راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ پہ نیومیٹروسٹی غیرمنظور شدہ (غیرقانونی) ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام سے موجود ہے،
یعنی ان کو کسی قسم کا قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے تاہم سوسائٹی انتظامیہ اور ڈیلرز عوام کو یہ تسلیاں دیتے پائے جاتے ہیں کہ ہم نے تمام پراسس مکمل کر لیا ہے اور ہمیں جلد این اوسی مل جائے گا، اس سارے معاملے میں آرڈی اے افسران و ملازمین کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہوئے ہیں اور پورے ضلع میں سوسائٹیز عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں،نیو میٹروسٹی انتظامیہ کی جانب سے زمینوں پہ قبضہ کے حوالے سے ہر مہینے مختلف کیسز سامنے آرہے ہیں، اس حوالے سے گزشتہ روز سول جج گوجرخان نے شہری محمد رمضان کی درخواست پر مستقل حکم امتناعی کا فیصلہ کر دیا ہے، شہری محمد رمضان کا مقدمہ بعنوان محمد رمضان بنام راجہ محمد اشفاق وغیرہ ایک سال سے عدالت میں زیرسماعت تھا، سوسائٹی کے اندر مہنگی ترین جگہ چار کنال پندرہ مرلے جگہ پر عدالت نے کسی قسم کی تعمیرات اور جگہ کی ہیئت تبدیل کرنے، ٹرانسفر کرنے سے مخالف فریق اور انتظامیہ کو تافیصلہ مقدمہ روک دیا ہے، مقدمہ میں مدعی کی طرف سے مرزا محمد ادریس ایڈووکیٹ نے دلائل دے کر عدالت کو قائل کیا، جبکہ مقدمہ میں یہ بھی ذکر ہے کہ راجہ محمد اشفاق نے نیومیٹروسٹی گوجرخان سے ساز باز کر کے قیمتی زمین ہتھیالی ہے جسے بیع کا جعلی رنگ دیا گیا ہے اور اس مقدمہ میں نیو میٹروسٹی انتظامیہ بھی فریق ہے۔
جن ڈیلرز نے لاکھوں کروڑوں کمائے انہی ڈیلرز کے ذریعے مختلف کھیلوں کے پروگرام نیو میٹروسٹی کے اندر کرائے جارہے ہیں اس ضمن میں کبڈی کا ٹورنامنٹ ہو چکا ہے جس میں لاکھوں روپے کے انعامات دیئے گئے اور آج بیل دوڑ کے مقابلے ہورہے ہیں جس میں لاکھوں روپے مالیت کے موٹرسائیکل انعامات دیئے جارہے ہیں اور یہ سب اس مقصد کے تحت کیا جا رہاہے کہ لوگوں کی توجہ ظالمانہ ڈویلپمنٹ چارجز کی جانب سے ہٹ جائے اور لوگ دوبارہ ہم پر اعتماد کرکے ڈویلپمنٹ چارجز ہمیں مہیا کریں۔قارئین کرام! نیو میٹروسٹی انتظامیہ پر الزامات ہیں کہ انہوں نے رقبے سے زیادہ فائلز فروخت کی ہیں، اب ان کے پاس لوگوں کو دینے کیلئے پلاٹ نہیں ہیں، جبکہ نیو میٹروسٹی انتظامیہ یہ دعویٰ کررہی ہے کہ ہمارے پاس ہزاروں کنال جگہ موجود ہے جس کو تیار کر کے ہم کسٹمرز کو مہیا کریں گے، سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ لاکھوں روپے ادائیگی کرنے والے کسی کسٹمر کے پاس موقع پر پلاٹ نہیں ہے،
کسی کو معلوم نہیں کہ اس کا پلاٹ کس جگہ موجود ہے، کسی کو قبضہ نہیں دیا گیا، کسی نے تعمیرات شروع نہیں کیں تو اس وقت ڈویلپمنٹ چارجز کیلئے فون کالز اور کسٹمرز کو پلاٹ کینسل کرنے کے نام پہ ہراساں کرنا کیسے درست ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسٹمرز یک زبان ہوکر ڈویلپمنٹ چارجز دینے سے انکار کریں اور اس پہ بھرپور احتجاج کریں، کیونکہ قاعدے قانون کے مطابق جب پلاٹ کا نمبر الاٹ ہو اور موقع پہ کسٹمر کے پاس قبضہ ہوتو ڈویلپمنٹ چارجز کی وصولی شروع ہوتی ہے، مگر یہاں قانون قاعدے سب پس پشت ڈال دیئے گئے ہیں، ضلعی و مقامی انتظامیہ کی مکمل آشیرباد سے نیومیٹروسٹی اپنے کسٹمرز کو ذبح کرنے کیلئے تیار ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ جنہوں نے ڈویلپمنٹ چارجز دینے ہیں وہ کس موڈ میں ہیں۔ والسلام