86

نوکری بچانے کے لیے انسانیت کی تذلیل

طالب حسین آرائیں /فیصلے کی آزادی اور پیسے کا حصول انسان کو خود غرض بنا دیتا ہے بعض لوگوں کا مطمع نظر صرف ذاتی انا کی تسکین اور چودھرہٹ ہوتی ہے لیکن یہ خام خیالی اپنی حقیقت کو خود ہی بے نقاب کرڈالتی ہے لیکن تب تک پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہوتا ہے اور پیچھے صرف پچھتاوے کا دکھ ہی رہ جاتا ہے۔کسی کے طاقت ورہونے یا کسی کے کمزور ہونے میں انسان کا اپنا کوئی کمال نہیں ہوتا یہ سب قدرت کی طرف سے ہوتا ہے مکمل تو یہاں کچھ بھی نہیں مگر اپنے ادھوراپن سے بے خبر لوگ اپنی طاقت کا استعمال کرکے انسانوں کی زندگی کا دائرہ تنگ کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔گوجرخان پولیس اسٹیشن میں رونما ہونے والے تشدد کے تازہ واقعہ میں الیاس نامی شخص کی موت وطن عزیز میں اختیار کے بے جا استعمال کی واضع مثال ہے۔کس طرح ایک سب انسپکٹر اپنے کندھے پر لگے اسٹار کی طاقت کا غیر قانونی استعمال کرتے درجن بھر افراد کے سامنے ایک شخص کو۔بغیر کسی اندراج مقدمہ۔بغیر کسی درخواست۔بغیر ورانٹ گرفتار کرتا ہے۔سولہ روز تک اسے اپنے عزیزواقارب سے ملنے نہیں دیا جاتا اس دوران اس پر اس قدر بے رحمانہ تشدد کیا جاتا ہے کہ اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔اس پر مزید افسوس ناک صورتحال یہ کہ مذکورہ سب انسپکٹر اپنی جان بچانے کے لیے مقتول کی نعش کو باہر پھینک کر اسے لاوارث لاش ثابت کی ناکام کوشش کرتا ہے۔کیا ایسا شخص انسان کہلانے کے لائق ہوسکتاہے۔لواحقین کی جانب سے متوفی کے جسم کی تشدد شدہ حصوں کی کچھ تصاویر میڈیا کو بجھوائی گئی ہیں۔ زیادہ تر تصاویر اس قدر اذیت ناک ہیں کہ انہیں تحریر کا حصہ بنانا ناممکن ہے۔تصاویر پر تشدد کے نشانات دیکھ کر سب انسپکٹر حسنین کے درندہ پن کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔گوجر خان اور گرد ونواح میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ گوجر خان پولیس اسٹیشن کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر اپنے اپنے غیر قانونی نجی عقوبت خانے بنا رکھے ہیں جہاں قانونی اور غیر قانونی طور پر گرفتار افراد پر تفتیش کے نام پر اس طرح بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے۔مجھے حیرت ہے کہ جب ایک عام آدمی ان ٹارچر سیلز بارے واقفیت رکھتا ہے تو کیا سیاسی رہنماءان بارے لاعلم رہے ہوں گے تصاویر کو دیکھ کر تھانہ گوجر خان کے سب انسپکٹر حسنین کی درندگی کا احساس کیا جاسکتا ہے۔مقدمہ درج ہونے کے بعد سے مذکورہ سب انسپکٹر منظر سے غائب ہوچکا۔سوال یہ ہے کہ جب واقعہ منظر عام پر آیا اور مقتول کے لواحقین کی جانب سے اس میں سب انسپکٹر کو موت کا ذمہ دار قرار دیا تو ایس ایچ او کی جانب سے مذکورہ سب انسپکٹر کو فوری طور حراست میں کیوں نہیں لیا۔فیصلوں کے لیے پنجائیت سجانے والے سیاسی وسماجی رہنماو¿ں نے اس پرکیوں غور نہیں کیا۔کہ بات چیت اور مذاکرات کی طوالت واقعہ میں ملوث افراد کو فرار کا راستہ فرا ہم کر سکتے ہے۔مقدمہ اندارج میں بھی کافی جھول رکھے گئے ایس ایچ او جس کی ناک کے عین نیچے یہ سب کچھ وقوع پذیر ہوا اس کو ملزم نامزد نہیں کیا گیا۔جبکہ اسے ملزم حسنین کے ساتھ مرکزی ملزم نامزد کیا جانا چاہیے تھا۔کوئی بھی شخص ان تصاویر کو دیکھ کر پولیس اہلکاروں کے لیے دل میں ذرا برابر بھی رحم کے جذبات نہیں رکھتا۔سوچ کر ذہن میں ایک طوفان اٹھتا ہے کہ مقتول کس بے چارگی سے زندگی کی بازی ہارا ہوگا۔کس طرح ان سنگدل اور سفاک اہلکاروں سے رحم کی بھیک مانگتا رہا ہوگا۔لیکن میرے سماج کے وہ لوگ جن کے دل پتھر کے اور سوچ طاقتور کی پشت پناہی پر ٹکی ہوئی ہے انہیں اس سے غرض نہیں۔مقدمہ درج ہوچکا۔انکوئری کے لیے نامزدگی بھی ہوچکی۔کاروائی کا آغاز بھی کردیا گیا۔لیکن مجھے بحیثت عوام متآثرہ خاندان کو انصاف ملنے کی توقع نہیں۔بس چند روز صرف چند روز انتظار کریں پھر اطلاعات ملیں گی کہ
ہمارے معززین مقتول کے ورثاءکو خون بہا کی رقم پر راضی نامہ کرنے کی آفر کر رہے ہیں۔اس کے لیے منت سماجت کے ساتھ۔دھونس دھمکی بھی ہوگی۔کیونکہ ایسے لوگوں کی چودھرھٹ انہیں لوگوں کے دم سے ہوتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انکوئری افیسر معاملے کی طے تک پہنچے کہ مذکورہ سب انسپکٹر کس کی بیگار دیتے ہوئے اس حد تک گیاکہ اس کے ہاتوں اس شخص زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا؟؟۔الیاس کی گرفتاری کے وقت پولیس موبائل کے ساتھ دو پرائیویٹ گاڑیاں کس کی تھیں ممکن کہ یہ لین دین کا سیدھا سادہ معاملہ نہیں ہے۔دعا ہے رب کائنات انکوئری افیسر کو حق وسچ کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔کیونکہ سامنے ایک جانب مظلوم ہیں تو دوسری جانب پیٹی بند۔۔۔
بڑا مسلہ ہے لیکن اس کا زکر خیر تک کرنا کبھی مناسب نہیں سمجھا گیا بلکہ گیس والے ڈھول کو این اے59سے منتخب غلام سرور خان کی ٹیم کے گلے ڈال کر بری الذمہ ہوجانا ہی شائید سیاست اسی کا نام ہے ،دوسری جانب اس قانو گو کی عوام مکمل طور پر ڈکیتوں کے رحم کرم پر ہے آئے روز ڈکیتییوں کی وارداتوں نے عوا م کا جینا محال کر رکھا ہے تھانہ روات میں سیاسی در اندازی کہیں اور سے جاری ساری ہے لیکن جب بھی موصوف کے سامنے سوال رکھا گیا تو جواب آتا ہے میں اس میں مداخلت نہیں کرونگا عوام بھلے جائے بھاڑ میں لٹتی ہے تو لٹتی رہے ہم تو چین کی بانسری بجائیں گے دوسری جانب ترقیاتی کاموں کے حوالہ سے فنڈز کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے جس کا ہر پاکسانی کو ادراک ہے لیکن عوام کو محکمہ پولیس اور پٹواری ازم سے نجات دلائی جا سکتی ہے لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس پر لب کشائی کی جائے ،عوام کوان کی دہلیز پر انصاف دینے کی دعویدار پارٹی کے منتخب ایم این اے نے اپنے دوروں میں ایک ہزار بار یہ دعوی کیا کہ قانو گو ساگری میں کھلی کچہریوں کا اہتمام ہوگا لیکن پتہ نہیں کب ایک سال گزرنے کے باجوداب تک کسی بھی محکمہ کی جانب سے ایک سنگل کھلی کچہری کا انعقاد نہیں کیا جا سکا
قانو گو ساگری کے دورہ کے موقع پر جب بھی ان کے سامنے کوئی سوال رکھا گیا تو انہوں نے فی الفور کہا کہ کھلی کچہری میں اس شعبہ کے متعلقہ افسران اس کا اذالہ کریں گے لیکن نہ لگی کھلی کچہری اور نہ ہوا مسلہ حل موجودہ سیاست پر ایک کہانی یاد آگئی کہ ایک بلی اور چوہے کی آپس میں دوستی تھی وہ روزانہ پکڑن پکڑائی کھیلتے تھے چوہے کو دل میں یہی دھڑکاکہ کسی دن اس کی قربانی لگ جانی ہے وہ اپنی جگہ چوکس تھا ایک دن بلی بھوکی تھی اس کو کوئی شکار نہ ملا جس پر اس نے چوہے کو شکار کرنے کا سوچا ایک جھپٹا مارا لیکن ہوشیار چوہے کا ایک کان اس کے ہاتھ میں آیا اور چوہا بل میں گھس گیا بلی نے بڑی چالاکی سے کہا کہ آو میں تمھارا کان جوڑ دوں لیکن چوہا دونوں ہاتھ باندھ کر بولا کہ بخشو بی بلی چوہا کان کٹا ہی بھلا،، وعدوں کی اتنی بہتات کہ اللہ معافی لیکن ان کے اثرات کب آئیں گے حلقہ کی عوام کے ساتھ ساتھ سیلفیاں لینے والے مقامی لیڈران کو بھی آنکھیں کھولنا ہوں گی بصورت دیگر صداقت عباسی کی سیاست سمیت ان کی سیاست کا بھی کریا کرم ہو سکتا ہے اور صداقت عباسی کو بھی اب خواب دکھانے کے بجائے عوامی مفاد کے کام کرنے ہوں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں