ہمارا وطن پاکستان انارکی کی شکل اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے اور خانہ جنگی کی راہ تیزی سے ہموار کی جا رہی ہے اور ہم لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ دن رات ایک کرکے ملک کو بچانے میں مصروف ہیں ہم کو شاید نا دانستہ طور پر ایسے راستے پر لگادیا گیا ہے کہ جس سے ہمارے اس ملک کے دشمنوں کو ہی فائدہ ہو گا یقین جانیے کہ ان خطرات کا احاطہ کرنے کیلئے الفاظ کا فقدان ہے جو افعانستان کی طرف سے پاکستان کیلئے کھڑے کئے جا رہے ہیں دوسری طرف چین کو ہم نے ناراض اور بد اعتماد کر دیا ہے ہماری معیشت بد حالی کا شکار ہے حکومتی بیانات کے مطابق پاکستان کی معیشت ترقی کی طرف گامزن ہے لیکن عملی طور پر ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے بلوچستان اور قبائلی اضلاع تو درکنار گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں بھی لاوے پکائے جا رہے ہیں مذہبی انتہاپسندی سنگین شکل اختیار کر چکی ہے ان حالات میں ہمارے ملک میں ایسی حکومت برسراقتدار ہے جو سول سوسائٹی‘اپوزیشن جماعتوں اور دیگر اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے بجائے ان کو آپس میں گھتم گتھا کرانے کی کوشش میں مصروف ہے الیکٹرانک میڈیا کی رہی سہی حیثیت کو ختم کرنے اسے معاشی طور پر مفلوج کرنے اور نام نہاد آزادی سے محروم کرنے کے بعدتبدیلی سرکار نے اب ایک نیا آرڈینس تیار کیا ہے جس کواگراسی شکل میں نافذکر دیا گیا توپاکستان صرف نام کا اسلامی جمہوریہ پاکستان رہ جائے گا یقینایہ ایک ابتدا ئی مسودہ ہے اور مشاورت کرنے کے بعد ہی اس کو حتمی شکل دی جائے گی لیکن اس سے حکومت کی نیت اور ارادوں کا پتہ ضرور چلتا ہے اور پھر یہ کہ اگر وہ کرنے پر آجائے توہمیں پتہ ہے کہ یہاں پر کس طرح پارلیمنٹ کو بلڈوز کیا جاتا ہے اور کس طرح حکومت من مانے طریقے سے آرڈیننسز جاری کرتی ہے اس نئے آرڈیننس کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں آرڈیننس کا نام میڈیا ڈوپلمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021ہے جس کی رو سے پیمرا وغیرہ کوختم کرکے تمام ادارے ایک نئی اتھارٹی میں ضم کر دیئے جائیں گے سابقہ ایکٹس اور قوانین ختم ہوں گے یا ان میں ترمیم کر دی جائے گی یا سوشل میڈیا سے متعلق تمام معاملات بھی اس اتھارٹی کے تحت آجائیں گے یہ اتھارٹی فلم‘الیکٹرانک میڈیا‘پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا یعنی ٹی وی‘آن لائن نیوز پلیٹ فارم وغیرہ کو بھی ریگولیٹ کرے گی نئے قانون کے تحت یو ٹیوب وغیرہ چینل‘ایمازون پرائم‘نیٹ فلیکس اور ویب ٹی وی وغیرہ کیلئے بھی حکومت سے لائسنس حاصل کرنا پڑے گا ڈیجیٹل میڈیا کیلئے بھی اخبار کی طرح اجازت لینا ضروری ہو گی اس اتھارٹی سے این او سی حاصل کئے بغیر ٹی وی اور اخبارکی طرح کوئی ڈیجیٹل چینل بھی نہیں چلا سکے گایہ اتھارٹی الیکٹرانک چینلز اوراخبارات کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا چلانے والوں کو خلاف بھی اس طرح کاروائی کر سکے گی جس طرح پیمرا الیکٹرانک میڈیاکے خلاف کرتا ہے نئے قانون کے تحت یہ اتھارٹی خود مختار نہیں ہو گی بلکہ وفاقی حکومت اس کو پالیسی ایشوز پر ہدایات جاری کرے گی اور وفاقی حکومت کا فیصلہ ہی حتمی تصور کیا جائے گااس کے چوبیس ممبر ہوں گے جن میں گیارہ کی نامزدگی صدر مملکت‘وفاقی حکومت کے مشورے پر کریں گے اس اتھارٹی کے تحت الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا اینڈ فلم ڈائریکٹور یٹ کا م کریں گے الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کیلئے بھی صوبائی‘قومی اور عالمی سطح پر الگ الگ لائسنس لینے ہوں گے ڈیجیٹل میڈیا کو انٹرٹینمنٹ‘کڈز‘اسپورٹس‘نیوز ٹورزم اور اسی طرح کی کیٹیکریز میں تقسیم کیا جائے گا اور کوئی فرد صرف ایک شعبے کیلئے یو ٹیوب چینل کا لائسنس حاصل کر سکے گا ڈیجیٹل میڈیا کی بھی لائسنس فیس ہو گی نئے قانون کے تحت الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا اس بات کا پابند ہو گا کہ وہ روزانہ پانچ فی صد حکومت کی طرف سے پبلک انٹرسٹ میں فراہم کردہ مواد کو چلائے گاکسی کو ایسا مواد چلانے یا آن لائن کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جس میں صدر مملکت‘آرمڈفورسز یا عدلیہ کی بدنامی ہو رہی ہواسلام آباد اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ کئی دیگر بڑے شہروں میں بھی میڈیا شکایات کونسلز قائم کی جائیں گی جوپرنٹ‘الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے خلاف شکایات سنیں گی شکایات کونسل کے ساتھ ایک ایڈوائزی کونسل ہو گی جس کے آٹھ ممبران میں سے چار ممبر حکومت کے ہوں گے اس کونسل کے پاس سول کورٹ کے اختیارات ہوں گے اس طرح یہ اتھارٹی شوکازنوٹس دیئے بغیر اس اخبار‘ٹی وی‘ڈیجیٹل چینل کے خلاف کاروائی کر سکے گی جس نے ایسا مواد نشر کیا ہو کہ جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو جس سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچے جو فحاشی پھیلانے کا موجب بنے یا جو مروجہ معاشرتی اقدار کے منافی ہو نظریہ پاکستان اور قومی سلامتی تو ایک طرف لیکن کونسی چیز فحش ہے کونسی فحش نہیں یا پھرکونسا کام مروجہ معاشرتی اقدار سے موافق ہے یا نہیں اس بات کا فیصلہ کون کرے گا؟اپیلٹ کورٹ کے طور پر صدر‘میڈیا ٹربیونل بنائے گا جس کا چیئرمین ایسا شخص ہو گا جو ہائی کورٹ کا جج بننے کے اہل ہو گا باقی ممبران متعلقہ حلقوں سے مقرر کرے گا یہ ٹربیونل میڈیا کمپلینٹ کونسل یا اتھارٹی کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرئے گایہ ٹربیونل ویج بورڈپر عملدرآمد کو یقینی بنائے گا آرڈیننس کی رو سے میڈیا اور سوشل میڈیا سے اپیل یعنی ہائی کورٹ سے اپیل کا حق چھین لیا گیا ہے اور اتھارٹی یا ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی اس آرڈیننس کے تحت خلاف ورزی کرنے والے میڈیا پرسنز کو تین سے پانچ سال قید تک کی سزا سنائی جا سکے گی یہ اتھارٹی متعلقہ ڈویژن کی منظوری سے اپنے لئے رولز بھی بناسکے گی اور تبدیل بھی کر سکے گی اس معاملے میں یہ اتھارٹی نیب سے بھی زیادہ با اختیار ہو گی اگر حکومت اس آرڈیننس کو اسی شکل میں نافذ کرتی ہے تو پاکستان میں آزادی اظہار کا خاتمہ ہو جائے گا
286