طالب حسین آرائیں
ہمارے آباو اجداد نے آزادی کے لیے جو قربانیاں دیں آج کے حالات کے تناظر میں ان قربانیوں اور تکالیف کی اذیت مزید بڑھتی محسوس ہوتی ہے کیونکہ محنت اور قربانیوں کے بعد جیسا سوچا تھا ویسا نتیجہ نہیں نکلا یہاں بحث طبقاتی کشمکش کی نہیں بلکہ بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی سے پیدا ہونے والے مسائل کی ہے جن بے تحاشہ قدرتی وسائل سے اللہ تعالی نے ہمیں نوازہ ہے ان کے ہوتے ہوئے ہماری زوال پذیری صرف ہمارے سیاست دانوں‘بیور کریٹس اور چوکیداروں کی ہوس زر کے باعث ہے ایک حبس کا عالم ہے گھٹن ہے گھٹن زدہ ماحول میں عوام سسک رہے ہیں وسائل پر قابض افراد کی لوٹ مار کی وجہ سے نعمتوں سے نوازے جانے والے اس ملک کے باشندے تباہ حال زندگی جینے پر مجبور ہیں ۔موجودہ حالات میں شاعر مشرق علامہ اقبال کا خواب بھی با زبان خاموشی تعبیر کے معنی تلاش کرتا محسوس ہوتا ہے خدا کرے کبھی اس خواب کے ثمرات اپنے معنی اور اثرات کے ساتھ عوام کے حصے میں بھی آجائیں ورنہ ہم تو ایک عرصہ سے ایسے بیمار معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں تھوڑے تھوڑے عرصے بعد کوئی نہ کوئی بیماری کے علاج بہانے آوارد ہوتا ہے۔اور پھر عوام اس کے کیے جانے والے علاج کی قیمت ادا کرتی ہے´
اچھے کی امید کی آس لیے کتنے ہی لوگ اس دنیا سے جاچکے اور آنے والی نسلوں کے لیے اچھے اور پُرامن ماحول کا خواب بھی موجودہ نسل کی آنکھوں میں محض ایک آذیت بن کر رہ گیا ہے۔اکثر بے خبری میں انسان اپنے ہی دشمنوں کو اپنا سب سے بڑا ہمددر اور دوست سمجھ لیتا ہے اور پھر دشمن اس کی معصومیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی عیاری اور مکاری پر خوش ہوتا ہے یہی کچھ ہمارے سیاست دان ہمارے محفوظ ہمارے ساتھ کررہے ہیں ہمارے پیسوں پر عیاشیاں کرنے والے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ہماری مجبوریوں اور ہماری مشکلات کا کیا ادارک ہوسکتا ہے کہ کس طرح ایک مزدور اپنے خاندان کے افراد کے جسم اور سانس کے رشتے کو قائم رکھنے کی جہدوجہد میں پل پل مررہا ہے۔
سیاستدان چاہے اقتدار میں ہے یا اپوزیشن دونوں صورتوں میں ہمارے ٹیکسوں پر پل رہا ہے۔انہیں کیا کہ مہنگائی قوم پر ایک عذاب کی طرح مسلط ہے اور یہ مہنگائی خود ساختہ بھی ہے سرکاری نرخ صرف کاغذی کاروائی تک ہی محدود ہوتے ہیں ان پر عملدرآمد کے مجاز محکمے اور افسران صرف نرخ نامے جاری کرتے ہیں پورے ملک کی طرح گوجر خان اور بیول میں بھی سرکاری نرخوں پر سبزی فروٹ اور دیگر اشیاءخورد ونوش کی فروخت ممکن بنانے کی لیے کوئی میکنزم موجود نہیں۔مارکیٹ کمیٹی کی جانب سے قیمتوں کی تعین کردہ لسٹ دوپہر سے پہلے دوکانداروں تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔جب سرکاری نرخ نامے پر مبنی لسٹ پہنچتی ہے تو عوام الناس خریداری کرکے گھروں کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اس وقت سب گیس سمیت دیگر اشیاءکی قیمتیں سرکاری ریٹ پر اس لیے دستیاب نہیں کہ قیمتوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے والے اسسٹنٹ کمشنر گوجرخان اس مسلے پر باہر نکلنے پر آمادہ نہیں۔اگر کبھی کبھار بھولے سے باہر نکلتے بھی ہیں تو دوچار افراد کو جرمانے کرکے صرف فارملٹی پورے کرتے ہیں۔جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ وہ کوئی ایسا میکنزم بنائیں جس سے سرکاری نرغ نامہ وقت پر دوکانداروں کو مل سکے اور سرکاری
قیمتوں پر عمل درآمد بھی ممکن بنایا جاسکے۔اس۔وقت انڈوں کے علاوہ مرغی چھوٹے بڑے گوشت کے من مانے ریٹ وصولے جارہے ہیں۔اسی طرح دیگر اشیاءضروریہ بھی قیمتوں سرکاری نرخ سے فرق میں فروخت کی جارہی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ کنڑول ریٹ اتھارٹی اپنے فرائض کی ادائیگی میں ایمانداری برتے کیونکہ عوام کی قوت برداشت اب تقریباً ختم ہوچکی ہے۔
