495

پولیس مقابلہ مارا جانیوالا ڈکیٹ شکیل کیانی کون تھا؟ اس کا انوکھا طریقہ واردات پولیس کے لیے معمہ بنا رہا

آصف شاہ
وطن عزیز میں قانون کا جتنا مذاق اڑایا جاتا ہے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ایسا ہوتا ہو یہاں طاقتور طبقوں نے قانون کو اپنی لونڈی سمجھ رکھا ہے.یہاں جس کے پاس طاقت ہے،پیسہ ہے،اس کے لئے قانون موم کی ناک کے سوا کچھ نہیں. جدھر چاہے موڑ لے لیکن قانون جب اپنی طاقت دکھاتا ہےتوبڑے سے بڑے مجرم بھی بھیگی بلی بن جاتے ہیں. یہ اپریل کی ایک نیم خنک رات تھی تھانہ ایئرپورٹ جو اب چکلالہ کے نام منسوب ہوچکا ہے پولیس اہلکار ناکہ پر موجود تھے اسی دوران ایک سفید رنگ کی گاڑی آئی پولیس اہلکاروں نے حسب عادت چیکنگ کے لیے روکااور تلاشی کے لیے کہا جس پر گاڑی میں سوار افراد نے بحث شروع کردی جب بات بڑھی تو دوسرے اہلکار بھی متوجہ ہوئے تو کار سوار افراد نے گاڑی
گاڑی بھگانے کی کوشش کی لیکن روڈ پر رکاوٹوں کی وجہ سے گاڑی رک گئی گاڑی میں چارافراد نے اتر کرپولیس کی ناکہ پارٹی پر فائرنگ شروع کردی جوابی فائرنگ سے ایک ملزم ہلاک ہو گیا اوراسکے باقی ساتھی فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوگے جو ملزم موقع پرہلاک ہوا تھا اسی تلاشی لی گئ تو اسکی شناخت آصف کے نام سے ہوئی۔

زیراستعمال گاڑی سمیت ملزم قبضہ سے ملنے والا شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس سب جعلی تھاایس ایچ او سید حامد کاظمی سمیت نفری موقع پر موجود تھی اس اثناء پولیس کے سینئر افسران بھی موقع پر پہنچ گئے تو انکشاف ہوا کہ مارا جانے والا شخص کوئی عام ڈاکو نہ تھا بلکہ کنگ آف راہبری کے نام سے جانا جانے والا پنجاب پولیس کو انتہائی مطلوب شاطر ڈکیت شکیل کیانی تھا

آصف شاہ سینئر صحافی ہیں راولپنڈی اسلام آباد اور مضافات ہونے والے کرائم پر خاصی نظر رکھتے ہیں

راولپنڈی پولیس کی انتہائی انتھک محنت اور کئی سال پر محیط ورکنگ کا نتیجہ تھا جس کا رزلٹ انکے سامنے تھا کہ نامی گرامی ڈکیت تھانہ چکلالہ راولپنڈی کی حدود میں ایک پولیس مقابلے میں اپنے انجام کو پہنچ گیا۔اگربات کریں شکیل کیانی کی تو اسکو پنجاب بھر کے جرائم پیشہ عناصر کنگ آف ہاؤس رابری مانتے تھے بلکہ نامی گرامی ڈکیت اسکے آگے پانی بھرتے تھے

شکیل کیانی تھانہ روات کے علاقے جٹھہ ہتھیال سے تعلق رکھتا تھا اسکی زندگی کاآغاز کچہری میں بطور پرائیویٹ منشی کام کیاانتہائہ شاطر دماغ شکیل کیانی نے ایک منشی کے طور پر ایسے ایسے کام کیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔

پولیس زرائع اب اس بات کے دعویدار ہیں کہ اس نے بحثیت منشی 100 سے زیادہ جرائم پیشہ ملزمان کو جعلی روبکاروں کے ذریعے رہا کروایا تھا کہ متعلقہ عدالتوں لو پتہ تک نہ چل سکا کہ یہ کاغذات جعلی ہیں یا اصلی۔

شکیل کیانی جعلی دستاویزات تیار کرنے کا انتہائی ماہر تھا اور دستاویزست ایسے تیار کرتا تھا کہ اگر کسی چیز کا اصل مالک جس نے چیز تیار کی اسکے شامنے شکیل۔کیانی کی جعلی چیز رکھی جاتی تو اصل والے کو اپنی چیز جعلی محسوس ہونے لگتی تھی وہ انہی کاموں کی وجہ سے جیل بھی گیا جہاں اسکی رسم رواہ بڑے جرائم پیشہ عناصر سے بڑھی ۔

جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد اس نے پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو چکما دینے کے لیے اپنی ظاہری شناخت اور حلیہ تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا وہ حلیہ تبدیل کرنے کا بھی انتہائی ماہر سمجھا جاتا تھا کہ پولیس کے پاس اسکے شروع دن کی فوٹیج کے علاوہ کچھ میسر نہ تھا ۔

شکیل کیانی نے اپنی ڈکیتی کے ٹارگٹ کوموٹر وے کے قریب ترین واقع پوش ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو رکھا تھا جہاں یہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھس کر اہل خانہ کو گن پوائنٹ پر یرغمال بناتا اور پھر تسلی کیساتھ کرلوٹ مار کرتا تھا پولیس ذرائع کے مطابق دوران واردات یہ ہاتھوں پر گلوز اور منہ پر ماسک پہنے رکھتا۔

اس کا خاصہ تھا تاکہ اسکے حوالہ سے کوئی شواہد جائے واردات پر نہ رہ سکے اور نہ اسکی شناخت ظاہر ہوگوکہ وہ ڈکیت تھا لیکن ایک خاص کوالٹی تھی کہ اس نے کبھی دوران ڈکیتی گھریلو خواتین کے پہنے زیورات کو نہیں لوٹا اور نہ ہی مردوں سے انکے جیب سے والٹ نکلوالے

دوران ڈکیتی وہ متاثرین سے موبائل فون لیتا اور جاتے جاتے انہیں وہی پھینک جاتا تھا پولیس ذرائع کے مطابق واردات کے بعد قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور پولیس کو تحقیقات میں چکما دینے کے لیے بھی شاطر دماغ استعمال کا بہترین استعمال کرتا تھا ڈکیتی کے بعد راہ فرار کے لیے مخصوص روٹ اختیار کرکے غائب ہو جاتا تھا۔

زرائع اس بات کے دعویدار ہیں کہ شکیل کیانی راولپنڈی میں کسی بھی جگہ ڈکیتی کی واردات کرنے کےبعد اپنے علاقے جھٹہ ہتھیال سے گزر کر چکری انٹرچینج سے موٹر وے پر بجانب لاہور سفر کرتااور موٹر وے کے کسی بھی انٹرچینج سے آؤٹ ہوکر اپنی گاڑی کی رجسٹریشن نمبر پلیٹ تبدیل کرکے واپسی چکری کا سفر کرتے ہوئے “کے پی” کے علاقوں ہزارہ ، ایبٹ آباد و دیگر علاقوں میں روپوش ہو جاتا تھا۔

ڈکیت کی جانب سے ہر واردات بعد ظاہری حلیہ تبدیل کرنے، ماسک لگائے رکھنے اور موٹروے پر جاکر گاڑی کی نمبر پلیٹ تبدیل جیسی شاطرانہ حکمت عملی سے پولیس کو اس کا سراغ لگانے میں شدید مشکلات پیش تھیں یہاں موجودہCPOراولپنڈی سٹی سید خالد محمود ہمدانی کو کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہوگی ۔

انہوں نےنہ گزشتہ چھ ماہ سے شکیل کیانی اینڈ گروپ کی جانب بھرپور توجہ بلکہ اسکی سرکوبی کے لیے SHOچکلالہ SHO مورگاہ سمیت تفتیش کے ماہر انوسٹیگیشن افسران پر مشتمل ٹیم تشکیل دی تھی جنکوآئی ٹی سیکشن کی بھرپور معاونت حاصل تھی کئی ماہ کی انتھک محنت اور کاوشیں جاری رکھی۔ ماہ رمضان بھی اسی تگ دو میں گزراپولیس ٹیم نے اسکے کی ایک مخصوص روٹ سےچکری انٹرچینج سے موٹر وے پر انٹری سمیت گاڑی کی رجسٹریشن نمبر بجائے گاڑی کی باڈی پر موجود نشانات کی مدد سے مختلف مقامات کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی چھان بین کررہی تھی جس پر پولیس کی ٹیم کے سامنے ایک ایسی گاڑی آئی جو مختلف نمبروں کیساتھ توآتی جاتی۔ہے لیکن اسکی چند مخصوص چیزیں کبھی تبدیل نہ ہوئ

یہاں سے ہی پولیس ٹیم نے ایک نئے انداز میں تفتیش شروع کی اور اسی کی بنیاد پر انہیں شکیل۔کیانی کو ٹریس کرنے میں مدد ملی دوسری طرف شکیل کیانی اپنے یا فیملی ممبر کے نام سے رجسٹر موبائل سم استعمال نہیں کرتا تھامقابلے کے بعد جانچ پڑتال دوران ملزم کے قبضے سے جرمنی کی سم زیر استعمال نکلی جس پر اسکے روابط تھے بالآخر اس خطرناک ترین ڈکیت کی زندگی کا آخری دن تھا اس دن اسکی ساری چالاکی ساراساطر پن ختم ہو چکا تھا۔

ٹیم کی محنت رنگ لائی قدرت نے انہیں انعام سے نوازنے کا فیصلہ کیا اور مشہور معروف ڈکیت شکیل کیانی کو چکلالہ تھانے کی حدود میں پہنچادیاجہاں اسے کیفر کردار تک پہنچا دیاگیاہاؤس رابری، ڈکیتی وارداتوں کے کنگ سمجھے جانے والے شاطر ڈکیت کا سراغ لگا کر اسکو کیفر کردار تک پہنچانے والی ٹیم کا اگر زکر خیرنہ ہو اور انکو شاباش نہ۔

ملے تو یہ بھی بڑی زیادتی کی بات ہوگی اس ٹیم کو لیڈ کیاSPپوٹھوہار طلحہ ولی،سمیتSHOائیرپورٹ انسپکٹر حامد کاظمی SHOمورگاہ سب انسپکٹرخالد یارانچارج چوکی ڈی ایچ اے سب انسپکٹر عاطف سہیل،انچارج چوکی گلریز سب انسپکٹر لقمان پاشا،سب انسپکٹر اشتیاق حیدر، اسسٹنٹ سب انسپکٹر ثمر حسین، اسسٹنٹ سب انسپکٹر آصف حسین، اسسٹنٹ سب انسپکٹرغازی عمر، اسسٹنٹ سب انسپکٹر عمران خالد، جبکہ آئی ٹی سے سب انسپکٹر مظہر قادری سمیت ہیڈ کانسٹیبل خرم امیر، ہیڈ کانسٹیبل اجمل، ہیڈ کانسٹیبل عبدالرشید، کانسٹیبل محمد رضا، کانسٹیبل رفاقت، کانسٹیبل حامد اور کانسٹیبل محمد طاہرشامل تھے

ٹیم کوCPOراولپنڈی نے تعریفی اسناد اورنقد انعامات سےنواز کر انکی حوصلہ افزائی کی اور اگر کمانڈر سپاہ کی پشت پر ہو اور دلیری سے انکو سپورٹ کرے تو جرائم پیشہ عناصر کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ کھل کر جرم کرسکیں اور مجرم چاہے کتنا ہی چالاک اور شاطر کیوں نہ ہو اسکا انجام شکیل کیانی جیسا بھیانک ہوگا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں