ضیاء الرحمن ضیاء
مغربی دنیا میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کوئی نئی بات نہیں ہے، مغرب میں ہمیشہ سے اسلام کے خلاف بے دلیل اعتراضات کیے گئے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہی منفی پروپیگنڈا اور اسلام پر جھوٹے الزامات صلیبی جنگوں کی وجہ بنے تھے۔ اب مغربی میڈیا اس میدان میں سب سے آگے ہے اور مسلمانوں کا منفی چہرہ دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ ویسے تو میڈیا کی یہ مکروہ کوششیں ایک طویل عرصے سے جاری ہیں نائن الیون کے بعد اس میں اچھی خاصی تیزی دیکھی گئی اور اسلام کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑنے کی مذموم کوششیں کی گئیں بلکہ اسلام کو ہی دہشتگردی کا دوسرا نام دے دیا گیا اور دنیا میں ہونے والے تمام دہشتگردی کے واقعات کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔ جن واقعات میں مسلمانوں کا نقصان ہوا، ان کو بھی مسلمانوں کے ساتھ ہی جوڑنے کی کوشش کی۔کبھی شرعی سزاؤں اور حدود و قصاص جیسے پاکیزہ نظام پر اعتراضات اٹھائے۔ اسلامی معاشرے کو تنگ نظر اور متعصب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جی بھر کے زہر اگلا اپنے عوام کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔یہ سلسلہ تو ایک لمبے عرصے سے جاری تھا لیکن اب اس میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ کے بڑے میڈیا نیٹ ورکس میں یہ اضافہ ساٹھ فیصد تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یعنی یہ میڈیا اب اسلام کے خلاف عوام کی ذہنیت خراب کرنے کی اس قدر کوششیں کر رہا ہے۔ مغربی دنیا نے ایک عرصہ سے آزادی ئ اظہار رائے کے نام سے بے راہ روی کی راہ ہموار کر رکھی ہے۔ اسی آزادی رائے کی آڑ میں وہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرتے رہتے ہیں، کبھی اسلامی نظام حکومت و عدالت کا مذاق اڑاتے ہیں تو کبھی مسلمانوں کے شعائر کی توہین کرتے ہیں، کبھی پیغمبر اسلام کی ذات مبارکہ پر حملے کر کے مسلمانوں کو اذیت پہنچاتے ہیں تو کبھی قرآن کریم کی توہین کر کے امت مسلمہ کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ پھر جب مسلمانوں کی طرف سے ردعمل سامنے آتا ہے تو یہ چیخ اٹھتے ہیں۔ مغربی میڈیا کی ان تمام تر کوششوں کے باوجو د یورپ اور امریکہ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں وہاں مسلمانوں کی تعداد میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ان میں سے تو کچھ مسلمان وہ ہیں جو دیگر اسلامی ممالک سے روزگار وغیرہ کے سلسلے میں وہاں گئے اور وہیں مقیم ہو گئے لیکن ایسے افراد کی تعداد بھی کافی ہے جو پیدائشی طور پر وہیں سے تعلق رکھتے ہیں مگر اسلام کی حقانیت اور پاکیزہ تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر چکے ہیں۔ ان ممالک میں عام افراد میں اسلام تیزی سے مقبول ہو رہا ہے گزشتہ چند سالوں میں صرف برطانیہ میں ایک لاکھ سے زائد افرادنے اسلام قبول کیا ہے۔ 2008کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں 5000سے زائد برطانوی دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں جبکہ گزشتہ دس برس کے مقابلے میں برطانیہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔ ان میں سے اکثریت سفید فام نوجوان خواتین کی ہے، ان خواتین نے معاشرے کی بے راہ روی اور مادہ پرستی سے تنگ آکر اسلام کی آغوش عافیت میں پناہ لی ہے۔ ایک سروے کے مطابق صرف بارہ ماہ میں باون سو افراد نے اسلام قبول کیا جن میں سے لندن میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد چودہ سو ہے اور ان نو مسلموں کی کل تعداد کا دو تہائی خواتین ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے سروے اور رپورٹیں ہیں جو بہت سے ممالک میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کی خوشخبری سنا رہی ہیں۔ مغربی میڈیا اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کی جتنی کوشش کر رہا ہے لوگوں میں اسلام کے مطالعے کا شوق بڑھ رہا ہے۔ عام لوگ جب اسلام کے خلاف اتنی بڑی تعداد میں پروپیگنڈا دیکھتے ہیں تو ان میں اسلام کے بارے میں جاننے کا تجسس پیدا ہو جاتا ہے جب وہ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو انہیں قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے اور انہیں اسلام میں کشش محسوس ہوتی ہے یوں وہ اسلام قبول کر کے حقیقی سکون حاصل کر لیتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے امریکہ میں کتب فروشوں کے پاس قرآن کریم کے انگریزی نسخوں اور دیگر اسلامی کتب کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام میں اسلام کے مطالعہ کا رجحان بڑھ رہا ہے تو ان کتب کے خریداروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام کے ساتھ ابتداء ہی سے اسے دبانے اور مٹانے کی ہزار بار کوششیں کی گئیں لیکن ایسی کوششیں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی اور اسلام کو نقصان کی بجائے فائدہ ہی پہنچا۔ ایسا ہی اب نام نہاد مغربی روشن خیالوں کے ساتھ بھی ہو رہا ہے جو خود ہو سیکولر کہتے ہیں لیکن اسلام کے خلاف دلوں میں شدید بغض رکھتے ہیں۔ وہ عوام کو اسلام کے بارے میں متنفر کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن ان کی کوششیں ان کے خلاف ہی جارہی ہیں اور وہاں اسلام کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے
136