آصف شاہ
پنجاب کے تھانوں میں عوامی مسائل کے فوری حل اور فریقین میں صلح صفائی کو فروغ دینے کے لیے مصالحتی کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل میں لایا گیا تھا ان کمیٹیوں کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ چھوٹے موٹے جھگڑوں سمیت گھریلو تنازعات عدالتوں تک نہ پہنچیں اورعام عوام کو ریلیف ان کی دہلیز پر ہی میسر آسکے اس اقدام کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا گیاتاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلی تھیلے سے تقریبا باہر نکل چکی ہے اور افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے وقت کے ساتھ ساتھ یہ کمیٹیاں اپنے اصل مقصد سے نہ صرف ہٹ گئی بلکہ ان پرتقریباٹاوٹ مافیا کا قبضہ ہو گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ ان کمیٹیوں میں زیادہ تر ایسے افراد ممبر بن گے یا بنا دیا گیا ہے جن کا براہِ راست تعلق جرائم پیشہ گروہوں سے ہے یا وہ ان کے سہولت کار کے طور پر کام کرتے ہیں اور تھانے میں انکا آنا جانا مصالحتی کمیٹیوں نے آسان بنا دیا ہے یہ جرائم پیشہ عناصر کے سرپرست جنہیں عرف عام میں سفید پوش کیا جاتا ہے اصل میں سیاہ پوش کہلانے کے حقدار ہیں ایسے عناصر کمیٹی کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے جرائم پیشہ عناصر کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی لاچار اور مسائل کا مارا انکے پاس چلا جائے تو ممبران متاثرہ فریق پر دبائو ڈال کر زبردستی صلح کراتے ہیں اور طاقتور یا بااثر شخصیات کے حق میں فیصلے دلوانے میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں یوں انصاف کا قتل اورناانصافی کو فروغ ملتا ہے ان مصالحتی کمیٹیوں میں بیشتر ممبران کا کردار ایک طرح سے جرائم پیشہ سہولت کار کا ہے۔ یہ نہ صرف مقدمات کو دبانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ کئی بار متاثرہ شہریوں کو صلح پر مجبور کرنے کے لیے ڈرانے دھمکانے سے بھی گریز نہیں کرتے ایسی صورت حال میں عام شہری جو انصاف کی امید لے کر تھانے کا رخ کرتا ہے مزید مایوسی اور اذیت کا شکار ہو جاتا ہے اور اسکا اعتماد پولیس سے اٹھ جاتا ہے دوسری طرف ان کمیٹیوں میں بیٹھے افراد اکثر فریقین سے بھاری رقوم پولیس کے نام پر بٹورتے ہیں اور ان کی ”مصالحت” اصل میں پیسے کا کھیل بن چکی ہے۔ نتیجتاً انصاف صرف ان کو ملتا ہے جو مالی یا سیاسی طاقت رکھتے ہیں جبکہ غریب اور کمزور فریق مزید پس کر رہ جاتا ہے یہ کوئی فلمی یا تصورات کہانی نہیں ہے بلکہ عین حقیقت ہے اور ایسی صورتحال نے ان کمیٹیوں کی ساکھ بری طرح متاثر کی ہے۔
اگرچہ نیت نیک تھی لیکن عمل درآمد کی کمزوری اور ٹاوٹ مافیا کے اثر و رسوخ نے پولیس کے محکمہ کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے اوپر سے سونے پر سہاگہ کہ کرپٹ اہلکار انکے کندھے پر بندوق رکھ کر چلاتے ہیں اور دونوں ملکر مال بناو مہم شروع کرتے ہیں اس وقت اگر راولپنڈی کے سارے تھانوں کی مصالحتی کمیٹیوں کو کھنگالا جائے اور ان میں شامل افراد کاڈیٹا نکلوایا جائے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائیگا دوسری طرف ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ ان کمیٹیوں کے بیشتر ممبران صرف نام کی حد تک ہوتے ہیں اصل گیم کوئی اور ڈال رہا ہوتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی پیدا ہوچلی ہے کہ ان کمیٹیوں کی مکمل ازسرِنو جانچ پڑتال کی جائے۔ ممبران کی تقرری شفاف طریقے سے ہو اور صرف ایماندار، غیر جانبدار اور معاشرے میں اچھی شہرت رکھنے والے افراد کو شامل کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پولیس افسران کو چاہیے کہ وہ ان کمیٹیوں کی سخت نگرانی کریں اور شکایات پر فوری ایکشن لیں اگرحکومت اور پولیس انتظامیہ نے فوری اصلاحات نہ کیں تو یہ
کمیٹیاں عوام کے لیے انصاف کے بجائے ظلم اور استحصال کا ذریعہ بنی رہیں گی۔ جبکہ اگر ان کو درست خطوط پر استوار کر دیا جائے تو یہی کمیٹیاں عوام کو ریلیف دینے اور تھانوں کا بوجھ کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا یہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے