(عبدالحنان راجہ)
اسرائیل کو مسلم دنیا کا خون ناحق بہانے کا ایسا چسکا پڑ چکا کہ اس کے بغیر اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی پیاس ہی نہیں بجھتی اور پھر اقوام متحدہ کا دست شفقت اور امریکہ فرانس و مغربی ممالک کی پشت پناہی، تو پھر ڈر کیسا۔ تبھی تو اسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے کا مزا آتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اقوام متحدہ نے ایسا غنڈہ پال رکھا ہے کہ جسے کسی بھی ملک پر بلا اشتعال حملہ کا اختیار اور پوری عالمی دنیا اس کی جارحیت کی وکیل اور متاثرہ و مظلوم ریاست کے لیے صبر و تحمل کا درس۔ موساد کے تجزیہ نگار سیما شائن کے مطابق دشمن کے خلاف ایسی حکمت عملی بعض اوقات طویل ہوتی ہے جبکہ اسرائیلی اخبار کے مطابق موساد اور اسرائیلی ڈیفنس فورس نے ایران کے اندر مضبوط نیٹ ورک کے ذریعے ایران کی جانب سے زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائلوں کو ناکارہ بنایا اور ایران کے دفاعی نظام کو بھی غیر موثر۔ جس کے نتیجے میں ایرانی آرمی چیف، پاسداران انقلاب کے سربراہ سمیت اعلی ترین عسکری قیادت اور چوٹی کے 06 ایٹمی سائنسدان شہید کر دئیے۔ جس طرح پاکستان نے حالیہ پاک بھارت جھڑپ میں نئی جنگی حکمت عملی اختیار کر کے جنگوں کے تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا اسی طرح اسرائیل نے بھی ایران کے خلاف محض طاقت کے بے تحاشا استعمال کی بجائے خفیہ نیٹ ورک اور دفاعی نظام ہیک کرنے کے طریق کو اپنایا۔ اسرائیلی ماہرین کے مطابق اس آپریشن کا ڈھانچہ اسرائیلی فوج (IDF) اور اس کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کے درمیان سالوں پر محیط مشترکہ منصوبہ بندی کی بنیاد پر تھا۔ اس کا مقصد صرف اہداف کو نشانہ بنانا ہی نہ تھا بلکہ ناکامی کے امکانات کو کم سے کم کرنا تھا۔ اس کی حکمت عملی بنیادی طور پر تین طریق سے کی گئی اولا تہران کے مرکز میں خفیہ مرکز کہ جہاں سے موساد کے ایجنٹوں کے ذریعے خفیہ ڈرون اڈہ اس اڈے کا مقصد حملہ شروع ہونے پر اسرائیل کی طرف داغے جانے والے ایرانی میزائل لانچروں کو مقامی طور پر ہی فوری نشانہ بنا کر ناکارہ کرنا تھا۔ دوسرا ایران کے فضائی دفاعی نظام کو مفلوج کیا گیا۔اس حکمت عملی نے حملہ آور اسرائیلی طیاروں کے لیے ایک محفوظ فضائی راہداری (Safe Air Corridor) فراہم کی، جس سے انہیں اہداف تک بلا روک ٹوک رسائی حاصل ہوئی۔ جبکہ
تیسرے مرحلہ میں موساد کے زمینی کمانڈوز کا براہ راست استعمال تھا۔ یہ آپریٹوز خفیہ طور پر ایران کے حساس علاقوں میں داخل ہوئے اور اہم تنصیبات کے قریب پہنچ کر انہیں ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے والے میزائلوں سے غیر فعال کیا۔ یہ ایران کی انٹیلیجنس کی ناکامی تھی کہ کس طرح موساد کا نیٹ ورک سال ہا سال سے اس کی ناک کے نیچے پھلتا پھولتا رہا۔ انٹیلیجنس کی اس ناکامی نے ایرانی دفاعی صلاحیت کی کمر توڑنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ اب ایران جوابی کاروائی کے ذریعے اس نقصان کے ازالہ کی کوشش کر رہا ہے۔ گو کہ ایران کے پاس اسرائیلی دفاعی نظام کو جام کرنے کی صلاحیت نہیں مگر ایرانی قوم حوصلہ مند اور اسرائیل کے خلاف عوام قیادت کے شانہ بشانہ۔ پے در پے میزائل فائر کر کے اسرائیلی ڈیفینس سسٹم کو چکمہ دیا جا رہا ہے سو اب ایران اسی پر زور دے رہا ہے تل ابیب سمیت اس کی چند دفاعی تنصیبات کی تباہی حوصلہ افزا کہ فی الوقت ایران اسرائیل پر فضائی حملہ کی پوزیشن میں نہیں کہ ہمسایہ ممالک بھی اس کی راہ میں روکاوٹ ہیں جبکہ اسرائیل کے اندر کارروائیوں کے لیے اسے اب حماس کے مجاہدین دستیاب ہیں اور نہ حزب اللہ کی مدد، کہ اسرائیل نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران ایران کی حمایت یافتہ ہر دو تنظیمات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر انہیں ایران کی مدد کے قابل ہی نہیں چھوڑا اور عملی طور پر کوئی ملک اس کی مدد کو دستیاب نہیں کہ روس یوکرائن جنگ کی دلدل میں پھنسا بیٹھا پے اور عالم اسلام مذمت کے سوا اور کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں۔دوسری طرف ایران کے دشمنوں کی فہرست طویل کہ بیشتر مسلم ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات سرد مہررانہ بالخصوص مشرق وسطی کے ممالک کے ساتھ۔ایک اور تکلیف دہ حقیت BLA کے مراکز ایران میں ہونا۔جہاں سے بلوچستان میں سال ہا سال سے دہشت گردانہ کارروائیاں جاری اور انکے بھارتی ہینڈلرز کے ٹھکانے بھی وہاں۔ ہماری بار بار توجہ کے باوجود برادر ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے ایرانی حکومت نے وہ اقدامات نہ اٹھائے کہ جن کی توقع تھی۔ اس نے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو جنم دیا مگر اقبال نے ہمیں اخوت کے جس رشتہ میں پرو دیا پاکستان اس کو نبھانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا اور اب بھی پاکستان کا موقف سب سے جاندار اور دوٹوک جبکہ دو ہفتے قبل پاکستان نے ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے حصول کی حمایت کر کے اپنے حصہ کا فرض بھی ادا کر دیا تھا۔ مگر آہ ! اقبال نے جس تہران کو مشرق کا جنیوا بنانے کا خواب دیکھا تھا وہ کفر کے میزائلوں کی زد میں اور امت مسلمہ ماسوائے چار پانچ اسلامی ممالک کے سب اسرائیلی حملے کی مذمت تک سے گریزاں۔ایران کو اہنی حکمت عملی پر از سر نو غور کرنا ہو گا کہ گزشتہ بیس سالوں میں اس نے اپنے خلاف متعدد محاذ کھولے اور اہداف کے حصول(جوہری طاقت) میں وہ یکسوئی نہ دکھا سکا اور نہ سفارتی محاذ پر اس تحمل، برداشت اور حکمت کا مظاہرہ کر سکا جو ایسی رہاستوں کو مقاصد کے حصول کے لیے درکار۔ اس ضمن میں پاکستان کی مثال عملی صورت میں سامنے تھی مگر ایران نے پاکستان کی حکمت عملی سے نہ سیکھا اور وہ اپنی ہی ڈگر پر چلتا رہا۔ مذہبی قیادت سخت گیر ہوتی ہے جو ریاستوں کے اہداف کی راہ میں روکاوٹ بالخصوص جب آپ پوری دنیا کی نظروں میں ہوں۔ ایران کے ساتھ بھی کچھ حد تک معاملہ یہی کہ سیاسی قیادت اہم فیصلوں میں پوری طرح آزاد نہیں اسی لیے خارجہ محاذ پر اس کی کامیابیوں کا تناسب محدود۔ مگر لگتا یوں ہے کہ بھارتی اور اب اسرائیلی جارحیت ھم پر اسلامی دفاعی بلاک کے دروازے کھول رہی ہے اگر حکمت اور دانش کو بروئے کار لایا جائے تو مستقبل میں ایک ایک کر کے کفر کے ہاتھوں ذلت اور جارحیت سے بچا جا سکتا ہے۔ اسکے لیے پاکستان، ایران، سعودی عرب، ملائشیا، آذربائیجان اور ترکیہ مشترکہ دفاع واجب ہو چکا۔ کہ عراق، لیبیا اور شام میں اسرائیل اور امریکہ اپنے اہداف کامیابی سے حاصل کر چکے اب ایران پہ حملہ آور پھر بلامبالغہ اگلا ہدف پاکستان اقوام متحدہ پر انحصار کی بجائے چین کی قیادت میں ثالثی کونسل اور او آئی سی کو فعال کرنا ہو گا۔ کہ عرب اور بیشتر اسلامی ممالک تو اسرائیل کے آگے ایک دن کی مزاحمت کے قابل نہیں۔ عوام پاکستان کی محبتیں، عقیدتیں اور کامیابی کی دعائیں اہل ایران کے ساتھ۔ کالم کا عنوان سانحہ ماڈل ٹاؤن اور انصاف کے تقاضوں پر تھا کہ 17 جون 2014 کو پاکستان کے شہر لاہور میں خون کی ہولی کھیلی گئی مگر قاتل معلوم ہونے کے باوجود قانون کے لیے نامعلوم۔ ایک دہائی گزر جانے کے بعد بھی مظلوموں کو انصاف کا نہ ملنا پاکستان کے نظام انصاف پر سوالیہ نشان اور طاقتور اداروں کے لیے لمحہ فکریہ کہ انصاف کی سربلندی ہی ریاستوں کی بقا کے لیے ضروری اور استحکام بھی اسی سے ممکن۔