مارچ 1977 ء سکولوں کے سالانہ امتحانات جو مارچ میں منعقد ہونے تھے وہ 7 مارچ کو قومی اسمبلی کے الیکشن ہوئے اور قومی اتحاد نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات جو 10 مارچ کو ہونے تھے
قومی اتحاد نے اس کا بائیکاٹ کردیا اور تحریک شروع کردی سالانہ امتحانات ملتوی ہوگئے پھر مئی میں جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اعلان فرمایا پہلی سے لیکر نویں کلاس تک بچے پاس تسلیم کئے جائیں
ان کو اگلی کلاسوں میں پروموٹ کردیا جائے‘ ہم چھٹی سے پروموٹ ہوکر ساتویں میں چلے گئے ساتویں میں پہنچے تو ناچیز کلاس مانیٹر تھا انگریزی کے استاد کلاس میں داخل ہوئے چہرے پر بلاکی سنجیدگی اور وقار تھا
اور محسوس ہوا کہ بڑے غصے والے استاد محترم ہیں‘ کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور پوچھا کلاس کا مانیٹر کون ہے میں نے عرض کی سر میں ہوں کہنے لگے”تمہارا نام کیا ہے
“میں نے عرض کی خالد محمود۔ ان کے لہجے سے محسوس ہوا بہت سخت استاد ہیں لیکن چند دنوں کے بعد ہمیں احساس ہوگیا یہ تو بہت ہی مہربان اور محنتی استاد ہیں
جس مہربان استاد کا ذکر کررہا ہوں وہ استاد محترم محمد حنیف ساقی رحمہ اللہ تھے، استاد محترم محمد حنیف ساقی رحمہ اللہ 30؛ جون 1943 محمد شیر زمان کے گھر نڑالی تحصیل گوجر خان میں پیدا ہوئے ان کے والد صاحب زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے
لیکن محمد حنیف ساقی رحمہ اللہ کو بچپن سے تعلیم سے جنون تھا۔انھوں نے پرائمری کی تعلیم نڑالی سے حاصل کی اور مڈل کا امتحان بھی نڑالی مڈل سکول سے 1958 میں پاس کیا اور میٹرک کا امتحان ہائی سکول کالس سے 1963 ء میں امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔ لالہ موسیٰ سے JV کا امتحان پاس کیا
اور بطور پرائمری استاد گورنمنٹ پرائمری سکول فریال میں 8 جنوری 1965 ء تعینات ہوئے اسکے بعد سروس کے دوران انٹرمیڈیٹ کا امتحان سرگودھا بورڈ سے 1969 میں پاس کیا اس کے بعد پروموشن ہوگی اور پروموشن کے بعد مڈل سکول کنگر مدھال میں یکم اکتوبر 1975 کو پوسٹ ہوئے
اور 27 مئی کو گورنمنٹ ہائی سکول کونتریلہ میں پوسٹ ہوئے وہ انگلش اور مطالعہ پاکستان کے بہت اچھے استاد تھے بہت ہی محنتی اور، مہربان استاد تھے
میں نے پانچ سالوں میں ان کو کبھی لیٹ آتے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں نے ساتویں سے بزم ادب میں سکول سطح پر تقریر کرنا شروع کی میرے لہجے کو دیکھ کر کہنے لگے
تم انگریزی میں تقریر کیا کرو پھر مجھے انگریزی میں پہلی تقریر لکھ کردیا۔اس کی بھرپور تیاری کروائی پھر اکیلے میں کھڑا کر کے وہ تقریر سنی اور شاباش دی پھر بزم ادب میں میں نے پہلی دفعہ انگریزی میں تقریر کی تو پھر آگلے دن بلا کر شاباش دی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی
اور جہاں اصلاح کی ضرورت تھی وہاں وہاں اصلاح کی پھر نویں کلاس میں مطالعہ پاکستان پڑھایا مطالعہ پاکستان کی پوری کلاس زبردست تیاری کروائی
، میں جب نویں کلاس سے پروموٹ ہوکر دسویں کلاس گیا سیکشن اے تھا جو سائنس گروپ تھا اس کا مانیٹر تھا ایک واقع ہوا میں نے لڑکوں کو کہا کہ دو دو روپے اگھٹے کریں تاکہ کمرے کی وائٹ واش کرائی جاسکے اور ایک گھڑا اور گلاس لیں گے تاکہ پانی پینے کے لئے کنویں پر تمام لڑکوں کو نہ جانا پڑے
اس پر عمل بھی ہوگیا لڑکوں نے دو روپے اگھٹے کئے ہمارے کلاس فیلو محمد ادریس نے کمرے کا وائٹ واش کیا۔اس کے بعد میرے استاد محترم کو معلوم تو اگلے دن اپنی نویں کلاس میں بلاکر تمام لڑکوں کے سامنے کھڑا کرکے میرے حوالے سے بہت ہی خوبصورت الفاظ ادا کئے۔
نویں کلاس کے لڑکوں کو کہا کہ اس طرح کے طالب علم دوسروں کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں مجھے آج تک ان کے الفاط یاد ہیں نوین کلاس میں مجھے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انگریزی میں ایک خوبصورت تقریر لکھ کردی پھر اس کی تیاری کروائی
وہ بہت ہی محبت کرنے والے، محنتی اور، مہربان استاد تھے ان کے ایک بھائی تھے جن کا نام بوستان خان تھا ان کے دو بیٹے ہیں بڑے بیٹے کا نام محمد معظم ساقی ہے وہ پاکستان آرمی سے ریٹائر ہوئے ہیں
چھوٹے بیٹے محمد منظم ساقی ہیں جو پنجاب پولیس میں ہیں ان کی چار بیٹیاں ہیں میرے مہربان استاد محترم محمد حنیف ساقی صاحب 31 جون 1996 ء کو گورنمنٹ ہائی سکول سے ریٹائر ہوئے
آج ان کے ہزاروں شاگرد ہیں جو ان کی زندگی کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ بہت ہی مہربان اور محنتی استاد تھے میرے مہربان استاد مارچ 2008 کو اپنے رب کے پاس پہنچ گئے ہیں
آج ان کے بیٹے بیٹیاں اور ہزاروں شاگرد اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر عرض کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے مہربان استاد محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرما اور انسان ہونے کے
ناطے ان سے کوئی غلطی ہوگی ہو تو درگزر فرما ان کی قبر پر اپنی رحمتوں کا نزول فرما ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے آمین یارب العالمین