194

محققین کی منزل۔۔۔۔۔ڈاکٹر عابدہ

بلا شبہ اسد اللہ خان غالب جی کبھی ریختہ کے اکلوتے اور ”نویکلے“ استاد ہوتے ہوتے ہوں گے لیکن کسی زمانے میں کوئی میر بھی تھا اور وہی سب شاعروں کا امیر بھی تھا ، جی ہاں میر تقی میر جی ۔ موسم بدلتے رہے ، وقت گزرتا گیا اور ہر عہد میں برصغیر پاک و ہند میں زبان و ادب کے دیپ جلتے رہے کبھی بُجھے نہیں ۔ اولین لشکری اور بعد ازاں ہندوی ، ہندوستانی ، ریختہ ، اُردو معلیٰ ، لکھنوی اور بالاخر اردو قرار پانے والی اس نیاری اور پیاری زبان ، اس عالمی و آفاقی زبان کے ہر عہد میں بڑے ہی دل پسند اور سربلند ماہرین و محققین و نقاد اور فاضل و ادیب و اساتذہ گزرے ہیں جو سب کے سب لائق داد و تحسین ہیں

اور اگر بات کریں ماضی قریب کی اور عہدٍ موجود کی تو بفضل اللہ آج بھی میرے دیس دھرتی میں ہماری ملکی و قومی زبان اردو کہ کئی اساتذہ موجود ہیں جو رینگ رہے ہیں ان تضادستانوں میں اور ریگستانوں میں ، صد افسوس کہ ہمیں نہ تو ان کی کوئی پہچان ہے اور نہ ہی کوئی قدر ہے ۔ میرے خیال میں اس بات پر جتنا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہوگا کیونکہ یہ پھولوں کی پتیاں خاک میں بکھری پڑی ہیں

اور ہم کانٹوں کے ہار گلے میں ڈالے ڈھول بجا رہے ہیں اور اس پر شاداں و نازاں بھی ہیں ۔ میرا دل تو چاہتا ہے کہ ایک مدت کے بعد میں آج ان بالا و اعلیٰ ہستیوں کا ذکر کروں یعنی اپنی اُردو زبان و ادب کے قابلٍ فخر ماہرینٍ لسانیات و اساتذہ ، ادیبوں اور شاعروں کے حوالے سے بات کروں لیکن اس کے لیے ایک نہیں کئی ایک کالم بلکہ کتب بھی لکھو تو وہ کم ہوں گی ۔ الغرض آج میرا موضوع ہیں اردو زبان و ادب کی نامور ملکہ رانی ، ممتاز ماہرٍ تعلیم اور معروف شاعرہ ادیبہ ڈاکٹر عابدہ بتول جی ، جن کے بارے میں ریاض ندیم نیازی نے اپنی کتاب ”وفا کے موتی“ میں فرمایا تھا کہ :

فکر و خیال و خواب کی خوگر ہیں عابدہ
شعر و سخن میں سب سے اُجاگر ہیں عابدہ
خوش بخت و خوش نصیب ہیں دنیا میں اس قدر
ایک شعری سلطنت کی سکندر ہیں عابدہ
مخلص ہیں ، نرم خُو ہیں ، ملنسار بھی ہیں وہ
رتبے میں جیسے کوئی قلندر ہیں عابدہ

”وفا کے موتی“ کے مصنف و شاعر برادرم و محترم ریاض ندیم نیازی جی نے اپنی اس اچھوتی و منفرد نظم میں ڈاکٹر عابدہ بتول مدظلہ کے بارے میں جو بھی فرمایا ہے وہ صد فی صد درست فرمایا ہے ۔ اس میں مبالغہ آرائی نہیں بلکہ سچائی اور پذیرائی ہے ۔ عابدہ جی واقعی ادب فلک کا روشن ستارہ ہیں اور علم و حکمت کا ایک استعارہ ہیں ۔ مجھے اس بات کی بڑی ہی خوشی ہے اور فخر بھی ہے کہ ایم اے اردو کرتے ہوئے یہ محترمہ یونیورسٹی میں میری استاد رہی ہیں ، میں ان کا نہ صرف شاگرد رہا بلکہ شاگردٍ خاص بھی رہا ، میں ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کلاس میں اپنے ساتھی طلبہ و طالبات کو اپنا کلام سناتا اور داد و تحسین وصولتا ہوتا تھا ۔ ڈاکٹر عابدہ بتول جی کے الفاظ میں :

میں نے پوچھا
کون ہو تم ؟
چونک کے بولی
فراموشی کی الماری میں
دیمک زدہ کتاب ہوں میں

استاد ، محقق ، مولف ، نقاد ، افسانہ نگار ، شاعرہ ، ادیبہ اور سوشل ورکر ڈاکٹر عابدہ بتول ایف سی کالج چارٹرڈ یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اردو میں پروفیسر ہیں ، انہیں ایف سی کالج کی پہلی خاتون ڈاکٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ ریسرچ جرنل آفاقٍ تحقیق کی مدیر اعلیٰ اور آفاقٍ ادب پاکستان کی بانی و صدر ہیں ۔ انجمن نفاذٍ اُردو شعبہ خواتین کی صدر اور تحریک نفاذٍ اردو لاہور کی نائب صدر ہیں ۔ آپ ایف سی کالج کے علاوہ منہاج یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کو اور لاہور لیڈز یونیورسٹی میں ایم فل کلاسز کو پڑھا چکی ہیں ۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ میں ایڈ ایگزامنر اور پنجاب یونیورسٹی میں سب ایگزیمنر ہیں ۔ اپ کا مشہورٍ زمانہ شعر ہے کہ :

زیست کی کہانی میں مر چکی وہ کب کی
پھول پھر بھی تتلی کا انتظار کرتا ہے

ڈاکٹر عابدہ بتول کی زیر نگرانی تین ایم فل کے مقالہ جات بھی مکمل ہو چکے ہیں ، کئی تحقیقی و تنقیدی مضامین بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ ان کا ایم فل کا مقالہ ”اردو لغت نویسی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ“ اور پی ایچ ڈی کا مقالہ ”اردو کلاسیکی شاعری کی تدوین کا فن اور تدوین نو“ تھا ۔ آپ مختلف ادبی کانفرنسز میں ملکی و عالمی سطح پر اپنے مقالے پیش کرتی رہی ہیں ۔ عابدہ جی اپنے خالص پنجابی رنگ میں فرماتی ہیں کہ :

آکھن لگی باؤ جی !
حیاتی مانڑیں شالا
ہک گل تے دس ؟
کدی کسے دے کرب دی فوٹو کھچ کے
اس وچ رنگ بھرے نے

ڈاکٹر عابدہ بتول جی کی دو کتابیں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ ان کی پہلی کتاب ”فنٍ تدوین مباحث اور مسائل“ ہے جو ایم۔فل اور پی ایچ ڈی کا اساتذہ اور طلبہ کو سہولت فراہم کرتی ہے ۔ اور اس کے علاوہ ان کی دوسری کتاب بھی ہے جو ”اردو لُغت نویسی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ“ کے نام سے شائع ہو چکی ہے ۔ ڈاکٹر عابدہ بتول جی کے حوالے سے برادرم و محترم ڈاکٹر بدر منیر نے کیا خوب فرمایا ہے کہ :

نقد و لسانیات میں کامل ہے عابدہ
سارے محققین کی منزل ہے عابدہ

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں