ہمارے پیارے نبی حضورﷺ ملک عرب میں پیدا ہوئے اِسی سر زمین پر پہلے بھی انبیااِکرام مبعوث ہوتے رہے ہر نبی نے اپنے زمانے اورحالات کے مطابق شریعت کی باتیں بتائیں لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا نیکی کی دعوت دی برائی سے روکا آخر میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ مبعوث ہوئے آپ نے بھی یہی تعلیم دی جو سابقہ نبیوں نے دی ہمارے نبی بعض علماء کے مطابق 9 ربیع الاول اور بعض کے مطابق 12ربیع الاول کو بروز پیر صبح صادق کے وقت مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے آپ ﷺ جس زمانہ میں پیدا ہوئے اسے عام الفیل کہا جاتا ہے اورفیل عربی میں ہاتھی کو کہتے ہے یمن کا بادشاہ ابراہیہ کعبہ پر حملہ کرنے کی غرض سے آیا تھا فوج کے سپاہی ہاتھیوں پر سوار تھے اس وقت کعبہ کی رکھوالی حضرت محمدﷺ کے خاندان کے زمہ تھی کہتے ہے کہ حضرت عبداللہ کے کچھ جانور گم ہو گئے تھے جو شاید ابراہیہ کے لشکر کے پاس تھے حضرت عبداللہ ابراہیہ کے پاس آئے اور کہا کے میرے جانور واپس کرو تو ابرہیہ نے کہا کے تم جانور لینے آئے ہو اور تمہیں اپنے کعبہ کی کوئی فکر نہیں تو حضرت عبداللہ نے فرمایا مجھے تو میرے جانور دو کعبہ جانے اور کعبہ کا رب جانے وہ اپنے گھر کی حفاظت خود کر سکتا ہے اللہ تعالی نے پھر اپنی ادنی سی مخلوق ابابیل پرندے کے زریعے سے ابرہیہ کے ہاتھیوں کو ہلا ک کر دیا اور بہت سے سپاہی اسکے مارے گئے حضرت عبداللہ کا جو توکل اللہ کی زات پر تھا وہ اور بھی بڑھ گیا جب اللہ تعالی نے اپنے گھر کی خفاظت کی اللہ تعالی ہمیں بھی اپنی زات اقدس کا یقین نصیب فرمائیں بہر حال اس کے بعد عرب کے مروِجَہ طریقہ کی طرح یعنی جیسے رواج تھا کہ عرب کی عورتیں اپنے بچوں کو دودھ پلوانے کے لیے کسی دائی کے حوالے کر دیتی تھیں اجرت پر وہ دائی بچے کو دودھ پلاتی تھیں اور بچوں کو اپنے ساتھ لے جائیں اور دائیوں میں ایک دائی حلیمہ بھی تھیں جو خود بھی بہت کمزور تھی اور اسکی سواری کی اونٹنی بھی بہت کمزور تھی جسکی وجہ سے سب سے لیٹ مکہ میں آئی جب وہ دائی حلیمہ آئی تو سب دائیہ بچے لے چکی تھیں اور چونکہ حضرت محمد ﷺ یتیم تھے اس لیے کسی دائی نے انکو قبول نہیں کیا کہ یتیم بچہ ہے پیسے اجرت کے کم ملیں گے جب دائی حلیمہ آئیں تو انکو کوئی بچہ نہیں ملا سوائے یتیم بچے کے جو حضرت عبداللہ کا یتیم اور حضرت آمنہ کا لال تھا دائی حلیمہ نے اِس بچے کو قبول کر لیا اور کہا کہ اور کوئی نہیں تو یہی پَر ان کو کیا پتا تھا کہ یہ بچہ یتیم ضرور ہے پر ساری دنیا کی نعمتیں اِسکے قدموں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہو سکتیں جب پہلی دفعہ دائی حلیمہ جسکی چھاتی میں کمزوری کی وجہ سے دودھ کم ہو چکا تھا وجہ کائنات کے منہ لگتے ہی ان کی چھاتی دودھ سے بھر پور ہو گئی اور جیسے دائی حلیمہ کے جسم میں جان آگئی ہو جب ایک طرف سے دودھ پلا چکیں تو دوسری طرف سے دودھ پلانا چاہا تو اللہ کے نبی نے دودھ نہیں پیا اِس لیے کہ یہ میرے دودھ شریک بھائی کا حصہ ہے اور میں لوگوں کے حق انکو دلانے آیا ہوں ان سے لینے نہیں یہ ہے ہمارے نبی ﷺ کی تعلیم کی آپ نے بچپن میں بھی اپنے دودھ شریک بھائی کا حق نہیں پیا اور آج ہم جو اپنے آپ کو نبی کا پیرو کار مانتے ہے ہم اپنے نسبی بھائیوں کا حق بھی نہیں چھوڑتے اپنی بہنوں کا حق تو اکثر دیتے ہی نہیں جو دینے کا سوچتے ہے وہ بھی سب کے سامنے بیٹھا کر پوچھتے ہے اور بہنیں شرم کے مارے کہہ دیتی ہے کہ ہمیں ہمارا حصہ نہیں چاہیے حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ آج کے دور میں زمین اور مال کس کی ضرورت نہیں ہوتی اِس لیے علماء نے کہا ہے کہ بہنوں کا حصہ انکے نام کر دینا چاہیے اور وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنا حصہ اپنے بھائیوں کا نام کر دے گی دودھ پلانے کے بعد جب دائی حلیمہ اللہ کے محبوب کو لے کر چلی تو اونٹنی پر سوار ہوتے ہی اونٹنی کی صحت اچھی ہو گئی اور وہ سب سے آگے نکل گئی سب دائیاں حیران ہو گئی کے حلیمہ کو اونٹنی کو کیا ہوا وہ کہنے لگی کے حلیمہ کیا بات ہے کیا اونٹنی بدل گئی تو حلیمہ نے کہا کے اونٹنی نہیں بدلی بلکہ سوار بدل گیا ہے اللہ کے نبی کے حلیمہ کے گھر میں آتے ہی حلیمہ کے گھر کی حالت بدل گئی اور ہر چیز میں برکت ہی برکت ہو گئی ساری پریشانیاں خوشیوں میں بدل گئیں خود بھی صحت مند ہو گئیں اور اپنے بیٹے کو کم اور اپنے مقدر کے سکندر محبوب خدا کو زیادہ دیکھنے لگیں اللہ کے نبی 6سال تک حلیمہ سعدیہؓ کے پاس رہے اِسی دوران یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ سرکار دو عالم امام الا نبیاء محمد ﷺ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ اچانک کچھ لوگ آئے اور اللہ کے نبی کو پکڑا کر لٹایا اور سینہ چیر دیا اور دل مبارک کونکال کر زم زم یا جنت کے پانی سے دوھنی دی گئی اور پھر دل کو واپس رکھ کر بند کر دیا گیا جب بچوں نے دیکھا کے چھری سے سینہ چیر دیا گیا ہے تو وہ بھاگ کر حلیمہ سعدیہ کے پاس گئے وہ کہا کہ محمد کو کسی نے مار دیا وہ دوڑ کر میدان میں آئیں اور دیکھا کہ حضرت محمد ﷺ سلامت کھڑے ہیں جب کرتہ اتار کر دیکھا تو سینہ مبارک پر زخم کا ہلکہ سانشان تھا وہ بندے اصل میں فرشتے تھے اور انکے ہاتھ میں ایک طشت تھا جس میں جنت کا یا زم زم کا پانی تھا اور اللہ کے نبی کے پاکیزہ جسم کو پاکیزہ پانی اور پاکیزہ جگہ کے پانی سے دھنی دی گئی اس کی لوری کے لیے لفظ کہاں سے لاؤں
سارے عالم کے مقدر کو جگایا جس نے
وہ جس کے جھولے پے پلوئک نے ترانے چھیڑے
قیصروکسری کے بنیروں کو ہلویا جس نے
اور وہ کھلونوں سے نہیں شمس وقمر سے کھیلے
جس پے سایہ پَر جبرائیل کیا کرتے تھے
گود میں لے کر نکلتی تھی حلیمہ جس سمت
خار اس راہ کو کچھ لو سے دیا کرتے تھے{jcomments on}
153