ضیاء الرحمن ضیاء
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے نے امت مسلمہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، ایک حصہ عرب ممالک کا ہے اور دوسرے حصے میں عجمی ممالک ہیں ۔ عرب ممالک کے موجودہ حکمران اسرائیل کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، اسے تسلیم کرنے کی فکر میں رہتے ہیں جبکہ عجم دنیا کے ممالک نے اسرائیل کے بارے میں سخت مؤقف اپنا رکھا ہے اور اسے تسلیم کرنے سے صاف انکاری ہیں اور اسے ناجائز ریاست کہتے ہیں جو فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے قائم کی گئی اور جسے دیرینہ مسلم دشمن ممالک امریکہ و برطانیہ وغیرہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ انہی کی حمایت کی وجہ سے ہی اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے، براہ راست شہری آبادیوں کو بمباری کا نشانہ بنایا، معصوموں اور نہتے شہریوں کو بے گھر کیا، مسلمانوں کے قبلہ اول پر قبضہ کر کے اس کی بے حرمتی کی، اس ظالم اور ناجائز ریاست نے جبر و تشدد کی کئی دلخراش داستانیں رقم کیں۔
آج عرب حکمران اسی ناجائز اور اپنے بھائیوں کی قاتل ریاست سے تعلقات بڑھانے کی فکر میں ہیں اور اپنے چند ایک چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر امت مسلمہ کے اتحاد اور مشترکہ بیانیے میں دراڑیں ڈال رہے ہیں۔ یہ مسلم ممالک اس سے قبل بھی تو اسرائیل کے بغیر زندگی بسر کر ہی رہے تھے اب کون سی ایسی ضرورت پیش آگئی جو انہیں امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کو پس پشت ڈال کر ان کے سخت ترین دشمن سے ہاتھ ملانے پر مجبور کر رہی ہے؟ وہ اس دوستی کے نتیجے میں اسرائیل سے خیر کی توقع رکھتے ہیں جسے نادانی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اسرائیل کو تو امریکہ و برطانیہ کی مکمل اور واضح حمایت حاصل ہے، اس کی ایک بڑی مثال اس وقت دیکھنے میں آئی جب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنا سفارتخانہ بیت المقدس میں منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یعنی بیت المقدس پر قبضہ مضبوط کرنے کی خواہش اسرائیل سے بھی زیادہ امریکہ کو ہے۔ اب یو اے ای اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے اور اس کا مقصد یہ بتا رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل فلسطینی علاقوں پر قبضہ نہیں کرے گا۔ حالانکہ عرب حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل بہت زیادہ توسیع پسند عزائم رکھتا ہے اور ان کے نظریات کے مطابق آدھی سے زیادہ عرب دنیا اسرائیلی ریاست ہے جس کے حصول کے لیے وہ عملی طور پر کوششیں کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ایک علاقے پر قبضہ کر لیتے ہیں تو کبھی دوسرے پر۔ انہوں نے اپنے توسیع پسند عزائم سے باز نہیں آنا چاہے ہم کچھ بھی کر لیں۔
مصر نے جب اسرائیل کو تسلیم کیا اور وہاں اسرائیل کے سفارتخانے کے قیام کا وقت آیا تو مصر میں دریا کے ایک طرف تمام ممالک کے سفارتخانے ہیں، وہیں انہوں نے اسرائیلی سفارتخانہ قائم کرنے کا ارادہ کیا تو اسرائیلیوں نے اس سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہمارے نظریات کے مطابق اس دریا تک ہماری ریاست ہے اور سفارتخانہ ریاست کے اندر نہیں ریاست کے باہر ہوتا ہے، اگر ہم اسی جگہ سفارتخانہ بنائیں جہاں باقی تمام ممالک کے سفارتخانے موجود ہیں تو ہمارا سفارتخانہ ہماری نظریاتی ریاست کے اندر آجائے گا۔ جو سفارتی قوانین کے خلاف ہے لہٰذا ہم اپنا سفارتخانہ دریا کے پار بنائیں گے وہ علاقہ ہماری نظریاتی ریاست میں نہیں ہے۔ اب دیگر ممالک کے سفارتخانے دریا کی ایک طرف جبکہ اسرائیل کا سفارتخانہ دریا کی دوسری طرف واقع ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ کتنے مذموم عزائم رکھتے ہیں اور ان پر کتنی سختی سے عمل بھی کرتے ہیں۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ان سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ فقط ایک معاہدے کے نتیجے میں مسلم دنیا کو نقصان پہنچانے سے باز رہیں گے اور اپنے توسیع پسند عزام سے دستبردار ہو جائیں گے۔ عرب ممالک ان حقائق سے چشم پوشی کر کے اپنے عارضی مقاصد کی خاطر اسرائیل سے مراسم بڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے معاہدہ کیا تو بحرین کے فرمانروا حمد بن عیسیٰ نے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد الشیخ محمد بن زید النہیان کو ٹیلیفون پر مبارک باد دی اور کہا کہ امارات اور اسرائیل میں امن معاہدہ خطے میں امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو آگے بڑھانے میں مدد دے گا، انہوں نے اسے جرأت مندانہ قدم بھی قرار دیا۔ دیگر عرب ممالک بھی اس معاہدے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں کیونکہ ان میں سے کچھ تو پہلے ہی اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کر چکے ہیں یا تسلیم کرنے کے حق میں ہیں۔ لیکن اس سلسلہ میں ایران، ترکی اور پاکستان کی طرف سے شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور اسے بہت بڑی غلطی اور فلسطین کاز سے غداری قرار دے رہے ہیں۔ ایران نے اسے ٹرمپ کے الیکشن جتوانے کی سازش اور اسرائیل کو عرب میں مزید قدم جمانے کا موقع دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اسی طرح ترکی نے بھی اس کی شدیدمذمت کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات سے سفارتی تعلقات منسوخ کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ پاکستان نے اس معاہدے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کے دور رس مضمرات ہوں گے۔
اس معاہدے کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات دیگر مسلم ممالک کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر قائل کرے گا اور چھوٹے ممالک بالخصوص عرب ممالک اسے تسلیم کرتے چلے جائیں گے۔ اسرائیل پہلے تو انہیں سہانے خواب دکھائے گا اور بہت سے وعدے کرے گا جب بہت سے ممالک اسے تسلیم کر لیں گے اور وہ اپنے اہداف حاصل کر لے گا تو پھر مختلف بہانوں سے دوبارہ اپنے توسیع پسند عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرم ہو جائے گا۔ لہٰذا تمام مسلم ممالک کو ذاتی مفادات کی بجائے امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے اور او آئی سی کی تنظیم کو مضبوط کرتے ہوئے وہاں سے مشترکہ بیانیہ اپنانا چاہیے اور تمام ممالک اس تنظیم کے ذریعے باہم مشاورت سے کوئی نیا قدم اٹھائیں تو یہ امت مسلمہ کے حق میں نہایت سود مند ثابت ہو گا۔