29

ماورائے عدالت قتل ایک سنگین مسئلہ

ماورائے عدالت قتل (Extrajudicial Killing) سے مراد ایسے افراد کا قتل ہے جنہیں ریاستی ادارے بغیر کسی عدالتی کارروائی کے خود ہی سزا دے دیتے ہیں یہ عمل قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، اور انصاف کے تمام اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایسے قتل عام طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں یا ریاستی سرپرستی میں کیے جاتے ہیں اور اکثر ان کے پیچھے ”قومی مفادسیکیورٹی“ یا“ملکی سلامتی“ جیسے جواز پیش کیے جاتے ہیں اگرہم راولپنڈی میں 2020سے 2024 کے درمیان نظردوڑاتے ہیں توایک رف اندازے کے 64 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 2025کے پہلے پانچ ماہ۔

ان پانچ سالوں پر بھاری نظر آتے ہیں ان میں سے کچھ ہلاکتوں کو ماورائے عدالت قتل کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب ان کے پیچھے شفاف تحقیقات یا عدالتی کارروائی نہ ہو1987 سے 2017 کے درمیان توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت 75 افراد ماورائے عدالت قتل کا شکار ہوچکے اگرچہ ان میں سے تمام واقعات راولپنڈی میں نہیں ہوئے یہ مسلہ پورے ملک کا ہے راولپنڈی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ آج جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماورائے عدالت قتل کی وجوہات کیا ہیں اسکی بڑی وجہ کمزور عدالتی نظام کا ہونا ہے جب عدالتی نظام سست، غیر مؤثر یا بدعنوان ہو، تو ریاستی ادارے جلدی انصاف کی فراہمی کے لیے شارٹ کٹ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ماورائے عدالت قتل جیسا قبیح فعل جنم لیتا ہے۔

جبکہ اس کی دوسری بڑی اہم وجوہات سیاسی مفادات ہوتے ہیں حکومتیں یا طاقتور عناصرجو اپنے مفادات کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں وہ اپنے مخالفین سمیت صحافیوں‘یا انسانی حقوق کے کارکنوں کو دبانے کے لیے ماورائے عدالت قتل کا سہارا لیتے ہیں جبکہ اسکی تیسری اہم وجہ دہشت گردی اور جرائم کے خلاف جنگ کا ہونا ہے ریاست یا ادارے بعض مجرموں یا دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کو ضروری سمجھتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ قانونی کارروائی میں وقت ضائع ہوگا یا مجرم بچ نکلیں گے بلکہ ہمارے ہاں قانونی موشگافیاں اتنی ہیں کہ مجرم ہمیشہ بچ جاتا ہے جبکہ ملک کے سیکیورٹی اداروں کو بے لگام اختیارات دینا بھی ماورائے عدالت قتل کی اہم وجہ ہے جب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کسی نگرانی یا احتساب کے بغیر اختیارات دیے جائیں، تو وہ قانون سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنے شروع کرتے ہیں جسکا خاتمہ موت کی صورت میں سامنے آتا ہے لیکن اس عمل کے برعکس اسکے نتائج کو دیکھا جائے تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں سب سے ہہلے اس کارروائی سے قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہوجاتا ہے کیونکہ جب ریاست خود ہی قانون کو نظر انداز کرے تو اور اپنی عدالت لگاکر فیصلے شروع کردے تو عوام کا قانون پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً ایک انارکی جیسی صورتحال پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے ماورائے عدالت قتل کا سب سے اہم جزو یہ ہے کہ اس سے بے گناہوں کا قتل کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے اور کئی معاملات میں ایسے افراد بھی مار دیے جاتے ہیں جو بعد میں بے گناہ ثابت ہوتے ہیں، مگر ان کے لیے انصاف کا دروازہ بند ہو چکا ہوتا ہے جبکہ اس اقدام سے ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد میں کمی آتی ہے جب بھی پولیس یا دیگر ادارے عدالتوں کے بجائے خود کو جج، جیوری اور جلاد سمجھنے لگیں، تو عوام ان پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔لیکن وطن عزیز میں سیاسی انتقام اور دشمنیاں اسکی بڑی وجہ ہے بعض اوقات ماورائے عدالت قتل ذاتی یا سیاسی انتقام کا ذریعہ بن جاتے ہیں، جو کہ معاشرتی فساد کو جنم دیتے ہیں اس ظالمانہ نظام کو مکمل ختم کرنے کے لیے ہمیں ہماراعدالتی نظام کو مؤثر بناناہوگا انصاف کی جلد فراہمی اور عدلیہ کی خود مختاری ہی ماورائے عدالت اقدامات کا خاتمہ کر سکتی ہے جبکہ اگر ریاستی اداروں کا احتساب سیکیورٹی شروع ہوسکے تو اداروں کو کسی نگرانی کے بغیر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ایک آزاد کمیشن کے ذریعے ہر قتل کی تحقیقات ہونی چاہییمیڈیا، سول سوسائٹی، اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ ماورائے عدالت قتل کے نقصانات پر عوامی آگاہی مہم چلائیں جبکہ حکومتوں کو ایسے قوانین تعارف کروانے چاہئیں جو ماورائے عدالت قتل کو جرم قرار دیں اور ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں