186

قیس قیوم‘دوسروں کیلئے اچھا سوچنے والا

کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے

اس نے جانے سے پہلے ایک فقرہ میرے آنچل سے باندھ دیا ”I,ll Miss you”?پھر سارا سفر خوشبو میں بسا رہا۔قیس بھائی جس کے ساتھ چلتے ہیں اندر باہر سے ایک ہو کر گردن اٹھا کر چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ میری ملاقات قیس بھائی سے بہت کم ہوتی ہے مگر جب میں انکے چہرے کی طرف دیکھتا ہوں

تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ انسان معلوم نہیں کن مثبت سوچوں میں خود کو تلاش کر رہا ہے۔ انکی ایک بہترین خوبی یہ ہے کہ جب کوئی دوست مشکل ترین لمحات اور زندگی کی کشمکش سے گزر رہا ہو تو اس وقت بیشمار اختلافات کے باوجود اسے نہیں چھوڑتا۔ کیونکہ اس کے دماغ میں ایک ہی جملہ رواں دواں رہتا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ فرد یہ سوچ لے کہ جب میں مشکل وقت سے گزر رہا تھا تو اس نے مُجھے اکیلا چھوڑ دیا۔

اسکی بہترین مثال انجینئر قمر الاسلام راجہ جب جیل میں زندگی اور موت کی بے پناہ مشقت اور مشکلات سے گزر رہے تھے تو قیس قیوم بھائی نے اپنا سارا وقت اور سب کچھ قمر بھائی کے سامنے رکھ دیا اور کبھی دن کا کھانا کھاتے اور کبھی کھانا کھانا بھی بھول جاتے تھے۔سماجی اور سیاسی معاملات میں اپنا کام بعد میں کرتے ہیں

اور دوسروں کا کام سب سے پہلے کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ قیس قیوم جب بھی کسی سے ملاقات کرتے ہیں تو بے بہا پریشانیوں کے باوجود انکے چہرے سے مسکراہٹ گلاب اور چنبیلی کے پھول کی طرح خوشبو بکھیرتی ہوئی چاروں کونوں کو مہتر کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ قیس قیوم ساری زندگی لوگوں کی خدمت اور انکو پریشانیوں سے نکالتے رہے اور ساری زندگی یہ مثبت کام اور لوگوں کے معاملات حل کرتے رہیں گے

انشاء اللہ۔ مجھے کسی نے بتایا نہیں مگر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ بہت سے افراد نے قیس بھائی کو اپنی پارٹی چھوڑنے کا لالچ دیا ہوگا اور یہ بھی کہا ہوگا کہ ہماری طرف آ جاؤ ہم آپ کو بہترین عہدے سے بھی نوازیں گے۔ مگر یہ اللہ کا درویش بندہ ایسا ہر گز نہیں کرتا کیونکہ اسکا دل و دماغ ایک جیسا ہے۔ ایک شعر ملاحظہ فرمائیں قیس قیوم کیلئے۔
انسان کو انسان سے کینہ نہیں اچھا
جس سینے میں ہو کینہ وہ سینہ نہیں اچھا
احمد رضا راجا بتاتے ہیں کہ قیس بھائی غریبوں یتیموں مساکین اور بیواؤں کے بارے میں جب سوچتے ہیں تو معلوم نہیں کن سوچوں میں گم ہو جاتے ہیں اور پھر میں انکی آنکھوں کے سامنے اپنا ہاتھ گھماتا ہوں تو پھر وہ ان لمحات سے باہر آ جاتے ہیں۔ مگر اس کے بعد انکی گردن نیچے ہو جاتی ہے اور مجھے دوبارہ انکی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اوپر کرنا پڑتا ہے د وستو ایک بات یاد رکھیں کہ جو شخص کسی دُوسرے کیلئے اچھا سوچتا ہے

تو پھر مستقبل میں اسکی اولاد بھی اپنے والدین کے نقش قدم پر چلے گی اور پھر وہ وہی کردار ادا کریں گے جو وہ اپنے والدین کو دیکھ کر سیکھتے رہے اور سب سے بہترین بات کہ ایسی اولاد اپنے والدین کو ایسے سنبھالے گی کہ جیسے والدین نے انہیں بچپن میں لاڈ پیار سے سنبھالے رکھا۔ ایک اور بات ذہن نشین کر لیں کہ آپ اپنے بچوں یا دوسرے بچوں کو جتنا مرضی مثبت سوچ کا سبق دیں اگر آپ انکے سامنے وہ مثبت انداز والا کام کر کے نہیں دیکھائیں گے وہ کبھی بھی عملی طور پر عیاں نہیں ہونگے۔ قیس بھائی اپنی اولاد کے سامنے عملی طور پر مثبت انداز میں کام کرتے ہیں اور انشاء اللہ انکی اولاد قیس کے نقش قدم پر چلے گی اور آج کل بھی چلتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

قیس قیوم انتہائی مخلصدیانتدار اور دوستوں کو اپنا بھائی سمجھ کر انکے کام آتا ہے اور اس بات کی گواہی آپ انکے دوستوں سے لے سکتے ہیں چاہے اسکا دوست کسی دوسری جماعت سے ہی کیوں نہ ہو۔ اپنے کام بعد میں اور دوسروں کے کام سر فہرست کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ صبح سویرے اٹھتے ہیں اور سارا دن اور آدھی رات بھاگ دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ بے شمار مشکلات کے باوجود قیس بھائی نے اپنی پارٹی کو ہر گز نہیں چھوڑا۔ کیونکہ یہ شخص جس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے پھر مرتے دم تک گردن اونچی کر کے اور سینہ اوپر کر کے چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

یہ اپنے دشمنوں کے سامنے ایسے چلتا ہے کہ جیسے شیر جنگل میں بادشاہت لیے چل رہا ہو۔ بے بہا لوگ انکی پارٹی سے الگ ہونے مگر قیس قیوم نے یہ طے کیا ہوا تھا کہ اگر یہ تن تنہا یعنی اکیلا بھی رہ گیا تو یہ کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوگا۔ اور پھر سب نے دیکھ لیا کہ۔
حالات کے قدموں میں قلندر نہیں گرتا
تارا جو کبھی ٹوٹے تو زمین پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
قیس بھائی نہ تو ندی ہیں نہ دریا ہیں بس یہ ایک سمندر ہیں جو نہ تو ند…

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں