شاید یہ قمر عبداللہ کو بھی معلوم نہ ہو کہ قمر محمود عبداللہ سے قمر عبداللہ کا سفر‘کیوں اور کیسے شروع ہوا؟اور اس کی تکمیل کے مدارج کیا ہوں گے؟ماں کی میٹھی لوری نے ماں بولی سے محبت کا شرف بخشااور باپ کی روحانی و اسلامی تعلیم و تربیت نے علم و ادب سے شغف بخشا اس سے بڑ ھ کر اور خوش نصیبی کیا ہو سکتی ہے؟حدیث نبوی ؐ کے مطابق اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ ناموں میں عبدالرحمن اور عبداللہ سے آپ کا نام ہے آپ کا اصل نام قمر محمود عبداللہ جبکہ قمر عبداللہ تلمی نام ہے تحصیل گوجرخان کے قدیم گاؤں بھاٹہ کی علمی و ادبی اور مذہبی شخصیت جناب محمد اکرم کے ہاں چار جولائی 1967کو پیدا ہوئے
ابتدائی تعلیم کا آغاز گورنمنٹ ہائی سکول بھاٹہ سے کیا جہاں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر کے وظیفہ حاصل کیا شاید یہی وقت قمر محمود عبداللہ سے قمر عبداللہ کے سفر کا آغاز تھا ایف اے، بی اے،شہید کالج گوجرخان سے کیا جہاں کالج کے میگزین ”کانسی“کا اوّل“مسودہ سٹوڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے مکمل کیا پنجاب یونیورسٹی سے بی ایڈ اور اسلامیات و عربی میں ماسٹر کی ڈگری اپنے نام کی یہی نہیں جامعہ کتب شہد اسلام آباد سے اور تنظیم المدارس لاہور سے تجوید و قراٗت کی سند بھی حاصل کی۔ذرائع معاش کے لیے ٹیچنگ کا شعبہ چنا 1993میں محکمہ ایجوکیشن سے منسلک ہوئے گورنمنٹ ہائی سکول چنگا میرا،ایلمنٹری سکول نوردولال سے ہوتے ہوئے ایک طویل عرصہ سے اپنی مادرِ علمی گورنمنٹ ہائی سکول بھاٹہ میں قوم کے ہونہاروں کی تعلیم و تربیت میں مصروف عمل ہیں اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی علم و ادب سے وابستگی کے سبب نہایت احسن طریق سے بروئے کار لا رہے ہیں قمر عبداللہ بطور SSTٹیچر سکینڈری سکول ہیں مگر ان کی فکری و ادبی رجحانات کی بدولت ان کو اعزازی طور پر گریڈ 17ملا ہو ا ہے
گورنمنٹ ہائی سکول چنگا میرا میں تعیناتی کے دوران خطہ پوٹھوہار کے بزرگ شاعر حنیف حنفی سے اصلاح و تربیت لیتے رہے ان کے ساتھ ساتھ پوٹھوہار و پوٹھوہاری کی پہچان اختر امام رضوی شاعر،ادیب،براڈ کاسٹر سے بھی اصلاح و تربیت لی اور یوں ماں بولی پوٹھوہاری کے لیے کام کا سلسلہ شروع ہوا مندرہ مرکز میں ایک پوٹھوہاری ادبی تنظیم مشال کے بانی و چیئرمین بھی ہیں 1995میں شادی ہوئی اللہ تعالیٰ نے تین بیٹیوں اور ایک بیٹی سے نوازایوں تو سارے بچوں میں بہت علم و ادب سے شغف ہے تاہم محمد فرقان اللہ کو علم و ادب سے زیادہ دلچسبی ہے لکھنے کا آغاز 1994میں اسلام آباد کے ایک میگزین سے کیا۔اُنس،صبح بہاراں،لکھاری(لاہور)پنجابی ادب (لاہور) کہکشاں مفکر شقیل کے ساتھ ساتھ پوٹھوہاری میگزین پُرا میں تسلسل کے ساتھ تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں
مقامی اخبارات و میگزین کے ساتھ ساتھ قومی اخبارات نوائے وقت،دنیا،ایکسپریس اور اوصاف میں مضامین، افسانے اور مذہبی تحریریں شائع ہوئیں قمر عبداللہ نے بنیادی طورپر ایک صوفی صفت شخصیت ہیں جن کو دیکھ کر تصوف،صوفیانہ انگ کی عکاسی اور نمائندگی ہوتی ہے قمر عبداللہ نے ابتدا میں تصوف،مذہب اور تحقیق جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا تاہم افسانہ لکھنا زیادہ پسند ہے شاید یہی وجہ ہے کہ پوٹھوہاری کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں شیراز طاہر اور شاہد لطیف ہاشمی کے ساتھ تیسرا نام قمر عبداللہ کا آتا ہے اگر قمر عبداللہ کے علم و فن پر گفتگو کریں تو ان کی ذات کے کئی ایک پہلو نمایاں ہوتے ہیں 2012میں وزارت مذہبی امور کی طرف سے سیرت النبی ؐ کانفرنس مفاہمتی کا اہتمام کیا گیا جس میں آپ کا مقالہ مفاہمتی عمل کے لیے پائیدار حکمت عملی کی تشکیل /تعلیمات نبوی ؐ کی روشنی میں شائع ہوا۔
اکادمی ادبیات اسلام آباد نے2013میں افسانوں کے انگریزی ترجمے کیے تو قمر عبداللہ کے افسانے کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا یوں پوٹھوہاری عالمی ادب کا حصہ بنی ان کے کئی ایک پوٹھوہاری افسانے ریڈیو پاکستان سے پروگرام سخن شالاں میں نشر ہو کر بھرپور پذیرائی حاصل کر چکے ہیں اپنی ان گراں قدر خدمات کی بدولت قمر عبداللہ اپنے آپ کو ایک شاعر،ادیب،محقق اور سیرت نگا ر ثابت کر چکے ہیں اب تک ان کی چھ تصانیف شائع ہو چکی ہیں ان کی پہلی کتاب عربی شاہ قلندر پر ”جلوہ عشق“ اگست 2003میں شائع ہوئی جس کی تقریظ حنیف حنفی،ظفر محمود چشتی‘ سید اختر امام رضوی اور سید نسیم تقی جعفری نے لکھی۔جلوہ عشق کے بار میں پروفیسرسید نسیم تقی جعفری لکھتے ہیں میرا پختہ عقیدہ جبکہ ایسی تالیفات اور تصانیف ذوق و شوق کی شبنم آلودہ ہواؤں اور فضاؤں کی گداز پلکوں پر آرزو والا جستجو کے دبکتے جنگوؤں کی لازوال چمکاٹ کے عملی فروغ کا وسیلہ بنتی ہے جلو ہ عشق کے چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں جبکہ اس کتاب کا منظوم ترجمہ بھی شائع ہوا دوسری کتاب اردو ناولٹ دہشت گرد فروری 2010میں شائع ہوئی تیسری کتاب پوٹھوہاری افسانوں کی کتاب ”سانجھاں وچ تریڑاں“فروری 2010میں شائع ہوئی۔سانجھاں وچ تریڑاں نے بارے شیراز طاہر لکھتے ہیں قمر عبداللہ نیاں کہانیاں اچ پوٹھوہاری دہیتل ناں ڈوہنگا شاہد،ہلکی ہلکی ننکاری،اساں نیں آسے پاسے بسنے آلے مطلبی،خودغرض،لالچی تے لٹ مار کر نیں آلے کرداراں کی بڑے سوہنٹریں طریقے نال نبھایا گیا تے دسیا جے مدداں ہر دور اچ آپنڑاں مقام نے درجہ اکھڑیاں ہر واقعے کی اس نی سچائی نے بے باکی نال بیان کری نکے نکے جملے گلاں گلاں اچ آخان سانجھاں وچ تریڑاں نی سطر سطر وچ موتیے نیں پُھلاں ار پروئی کہ دَسے چوتھی کتاب بھاٹہ تاریخ کے آئینے میں 2016میں شائع ہوئی پانچویں کتاب پوٹھوہاری میں فن شعر خوانی فروری 2021میں شائع ہوئی جس بارے میں پروفیسر حبیب گوہر لکھتے ہیں مجھے اہلیان بھاٹہ کے مقدر پررشک آرہا ہے کہ اس گاؤں کی پانچ چھ سو سالہ تاریخ اور شخصیات پر اتنا تحقیقی کام ہوا ہمارے گاؤں گوٹھ اور قصبے تو درکنار بے شمار چھوٹے بڑے شہر ایسے ہیں جنھیں قمر تو کیا اب تک کوئی عبداللہ نہیں ملا۔
قمر عبداللہ کی چھٹی کتاب جس نے قمر عبداللہ کو عبداللہ سے قمر بنا دیا وہ بھی پوٹھوہار سارے کا قمر جس پرپوٹھوہار اور پوٹھوہاری کو فخر ہے فخر کا سبب کتاب ”خلقت نے سردار“قمر عبداللہ کی سیرت رسول ﷺ پر ایک نہایت جامع اور تحقیقی کتاب ہے۔ جس پرحکومت پاکستان کی جانب سے قمر عبداللہ کو 12ربیع الاول کے موقع پر سیرت رسول ﷺ پر لکھی گئی کتب میں اول پوزیشن لینے پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا خلقت نے سردار پہلی پوٹھوہاری کتاب ہے جس کو صدارتی ایوارڈ ملا جبکہ زیر طبع کتب میں چٹا لہو (پوٹھوہاری افسانے) مٹی کی خوشبو (اردو ناول)دلوں کی صلیب (اردو افسانے) کلام اقبال صوفیانہ شاعری شامل ہیں
اکادمی ادبیات کے 2013انگریزی پرچے میں ان کے پوٹھوہاری افسانے تلکنڑ راستّے کا ترجمہ پروفیسر شنازر نے Slipperi Routsکے عنوان سے کیا جوبعد ازاں جلندر سے گرہ مکھی رسم الخط میں بھی اور سوینئز ر لینڈکے ایک انگریزی پرچے میں شائع ہوا اسی ”کالی سویٹر“ پوٹھوہاری افسانے کا اردو ترجمہ شیراز طاہر نے کیا جو 2013میں اکادمی ادبیات کے پرچے میں شائع ہوا۔قمر عبداللہ اردو،اور پوٹھوہاری میں لکھے ہیں ابتداء میں تصوف اور مذہب کو اپنا موضوع بنایا اس کے ساتھ ساتھ نظم،غزل افسانہ اور دیگر موضوعات بھی لکھے ان کا سفر جاری ہے مگر ان کی شخصیت کا عملی اظہار نکھر کر سامنے آیا وہ ان کا ایک صوفی ایک صوفیانہ رنگ میں لکھنے والے تخلیق کار ہیں یہی وجہ جبکہ مجھے قمر عبداللہ کو شاعر ادیب،محقق اور ایک سیرت نگار لکھنا اچھا لگا ہے کیونکہ صدارتی ایوارڈ ملنے پر ان کا اظہار یہ جملہ تھا مہھاڑی کوشش سوہنٹریں اگے قبول ہوئی گئی میکی ہور کجھ نئیں چائی ناں۔میں امید کرتا ہوں قمر عبداللہ یوں ہی نوک قلم سے پوٹھوہار دھرتی کے رنگوں کو لفظوں میں پُروتے رہیں گے۔